131

القدس فیصلے پر اسرائیل کو ردعمل نرم رکھنے کا مشورہ

واشنگٹن۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے فیصلے کے بعد جہاں اسلامی اور عالمی سطح پر شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے وہیں امریکا نے جوابی حکمت عملی مرتب کرنا شروع کردی ہے۔غیر ملکی خبر رساں اداروں نے امریکی وزارت خارجہ کی ایک دستاویز شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ القدس کے بارے میں صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اپنا رد عمل نرم رکھے۔

دستاویز کے مطابق واشنگٹن کو صدر ٹرمپ کیالقدس بارے فیصلے پر عالمی رد عمل کی توقع ہے اور امریکا اپنے اداروں اور افراد کو لاحق ممکنہ خطرات کے تدارک کے لیے مختلف پہلوں پر غور کررہا ہے۔دستاویز پر چھ دسمبر کی تاریخ درج ہے جسے تل ابیب میں قائم امریکی سفارت کاروں کو بھیجا گیا ہے۔ دستاویز میں صدر ٹرمپ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ القدس کے حوالے سے خبر کا اعلانیہ خیر مقدم کریں گے میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ آپ سرکاری رد عمل میں ہاتھ ہلکار رکھیں۔خبر رساں اداریرائٹرز کے مطابق دستاویز میں مزید کہا گیا ہے کہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کے جانے کے رد عمل میں مشرق وسطی اور پورے مشرق وسطی میں مزاحمت ہوسکتی ہے۔

ہم اس فیصلے کے اثرات وعواقب کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بیرون ملک امریکی شہریوں اور امریکی اداروں کو لاحق خطرات کے انسداد کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔چھ دسمبر کی تاریخ میں جاری کردہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ نے القدس بارے صدارتی فیصلے کے رد عمل میں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ایک امریکی عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرزکو بتایا کہ امریکی حکومت کے کسی فیصلے پر متوقع عالمی رد عمل کے تناظر میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی فورسز کی تشکیل معمول کی بات ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے ان دستاویزات پر کوئی سرکاری رد عمل جاری نہیں یہ دستاویز ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس شہر کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنے کے احکامات دیے ہیں۔ ٹرمپ کے فیصلے پر عالم اسلام کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آ رہا ہے۔