138

سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس نمٹا دیا

اسلام آباد۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے میمو گیٹ کیس میں ریمارکس دیئے کہ کیا ریاست اب بھی میمو گیٹ کا خوف محسوس کرتی ہے؟ کیا ریاست پاکستان، مسلح افواج اور ہمارا آئین اتنا کمزور ہے کہ ایک میمو سے ڈر جائیں؟ یہ اتنے کمزور نہیں ہیں اور اللہ کا کرم ہے یہ بہت مضبوط ملک ہے۔ عدالت نے میمو گیٹ سکینڈل کیس نمٹاتے ہوئے کہا کہ حسین حقانی کی گرفتاری ریاست کا کام ہے۔

حکومت چاہئے تو حسین حقانی کیخلاف کارروائی کر سکتی ہے،آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانا ہے تو چلائے، اب عدالت عظمیٰ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ۔جمعرات کے روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ 8 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اس معاملے میں ایف آئی آر درج ہوچکی ہے اور ایک کمیشن 2012 میں معاملے کی رپورٹ دے چکا ہے۔عدالت نے کہا کہ اصل معاملہ میمو گیٹ کا ہے جو امریکی حکومت کو لکھا گیا اور اب نہ وہ حکومت ہے نہ حسین حقانی سفیر رہے۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار وطن پارٹی کہاں ہے؟ اگر درخواست گزار نہیں آیا تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین حقانی پر کچھ الزامات ہیں اور ان کی واپسی ضمنی معاملہ ہے، ان کی گرفتاری اور ٹرائل ریاست کا معاملہ ہے۔

ریاست چاہے تو حسین حقانی کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے لیکن سپریم کورٹ کا اب اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ریاست اب بھی میمو گیٹ کا خوف محسوس کرتی ہے؟ کیا ریاست پاکستان، مسلح افواج اور ہمارا ا?ئین اتنا کمزور ہے کہ ایک میمو سے ڈر جائیں؟ یہ اتنے کمزور نہیں ہیں اور اللہ کا کرم ہے یہ بہت مضبوط ملک ہے۔ انہوں نے کہا کہ میمو کمیشن نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ بھی دے دی تھی اور اس کی روشنی میں ایف آئی آر بھی درج ہے لہٰذا اب ایف آئی آر پر عمل کرنا ریاست کا کام ہے اور اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے کیس نمٹا دیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ نے امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حوالے سے میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا جبکہ حسین حقانی اور کیس میں دیگر فریقین بشمول سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نڑاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔

یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔اس سکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔