232

قصور میں قتل ہونے والی بچی کی نماز جنازہ ادا

نماز جنازہ پاکستان عوامی تحریک ( پی اے ٹی ) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پڑھائی جبکہ اس موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

واضح رہے کہ قصور میں 8 سالہ بچی کو اغوا کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا جبکہ اس واقعے کے بعد علاقہ مکینوں نے سخت احتجاج کیا اور ڈی پی او آفس پر دھاوا بول دیا۔

اس موقع پر مشتعل مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ بھی ہوئی لیکن وہ ڈی پی او آفس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز قصور میں شہباز خان روڈ پر کچرے کے ڈھیر سے 8 سالہ بچی کی لاش ملی تھی، جسے مبیہ طور ریپ کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

بچی کی لاش ملنے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا گیا تھا، تاہم اس حوالے سے رپورٹ میں بچی کے ساتھ مبینہ ریپ کی اطلاعات ہیں۔

دوسری جانب اس واقعے کے بعد قصور کی فضا سوگوار ہے، ورثاء، تاجروں اور وکلاء کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور تاجروں نے مکمل طور پر شٹر ڈاؤن کرکے فیروز پور روڈ کو بلاک کردیا جبکہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن (ڈی بی اے) کی جانب سے بدھ کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پولیس کی جانب سے جاری کردہ ملزم کا خاکہ — فوٹو، ڈان نیوز

پولیس کی جانب سے جاری کردہ ملزم کا خاکہ 

خیال رہے کہ 6 روز قبل جمعرات کو 8 سالہ زینب اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن پڑھنے گئی تھی، جہاں اسے اغوا کرلیا گیا تھا، جس کے بعد گزشتہ روز پولیس کو زینب کی لاش شہباز خان روڈ پر کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔

اس حوالے سے ابتدائی طور پر پولیس کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ بچی کو 4 یا 5 دن پہلے قتل کیا گیا۔

اس واقعے کے حوالے سے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آئی تھی، جس میں ایک شخص کو بچی کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، تاہم پولیس اس واقعے کے ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام نظر آئی۔

یاد رہے کہ قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ایک سال میں اس طرح کے 11 واقعات رونما ہوچکے ہیں، جن میں زیادتی کا نشانہ بنائی گئی بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد ریپ کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا جبکہ ان تمام بچیوں کی عمریں 5 سے 8 سال کے درمیان تھیں لیکن پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کا نوٹس

وزیر اعلیٰ پنجاب نے قصور میں 8 سالہ بچی سے مبینہ زیادتی اور قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔

انہوں نے اس حوالے سے انسپکٹر جنرل ( آئی جی) پنجاب پولیس سے واقعہ کی رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے مقتول بچی کے لواحقین سے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ خاندان کو ہر قیمت پر انصاف فراہم کیا جائے اور وہ اس کیس پر پیش رفت کی ذاتی طور پر نگرانی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ معصوم بچی کے قتل کے ملزم قانون کے مطابق قرار واقعی سزا سے بچ نہیں پائیں گے۔

علاوہ ازیں وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ واقعہ افسوس ناک ہے اور اس پر لوگوں کا مشتعل ہونا فطری عمل ہے لیکن عوام سے گزارش ہے کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔

ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد حاصل کی گئی ہے اور ملزم جلد گرفتار کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سی سی وی فوٹیج لگتا ہے کہ بچی ملزم کو جانتی تھی اور یہ شخص متاثرہ خاندان کا قریبی شخص معلوم ہوتا ہے۔

وزیر قانون نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں ملوث ملزمان کو 8 سے 10 گھنٹوں کے اندر گرفتار کرلیا جائے گا اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے قصور میں 8 سالہ زینب کے قتل کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ سیشن جج قصور اور ضلع کے پولیس افسران اس واقعے کی رپورٹ فوری طور لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائیں۔

سینیٹ کمیٹی کا نوٹس

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی نے پنجاب پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے واقعے رپورٹ طلب کرلی۔

کمیٹی کے چیئرمین رحمٰن ملک نے کہا واقعہ انتہائی افسوس ناک اور ناقابل برداشت ہے۔

زینب کا قتل پنجاب پولیس بطور چیلینج قبول کرکے مجرموں کو جلد گرفتار کرے اور اس حوالے سے 5 دنوں میں کمیٹی کو رپورٹ جمع کرائے۔

انہوں نے کہا کہ معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، انسانوں کی شکل میں ان درندوں کو جلد قانون کے کٹہرے میں لاکر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

دریں اثناء قصور واقعہ پر جماعت اسلامی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرادی۔

تحریک التوا میں کہا گیا کہ حکومتی مشینری اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اغوا ہونے والی زینب کو بازیاب کرانے میں ناکام ہوئے، جس کے بعد اس قسم کا واقعہ پیش آیا۔

تحریک التوا میں کہا گیا کہ قصور میں پیش آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اس قسم کے افسوسناک واقعات پیش آچکے ہیں۔

ملزمان جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے: آر پی او

ریجنل پولیس افسر (آر پی او) ذوالفقار نے اس واقعے کے حوالے سے بتایا کہ بچی کی موت گلا دبانے سے ہوئی ہے۔

میڈیا بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ بچی کے اہلخانہ اور علاقہ مکینوں نے کیس میں کافی مدد فراہم کی ہے اور ان کی مدد سے سی سی فوٹیجز بھی حاصل کی گئیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بچی سے زیادتی اور قتل کے واقعے پر ہر شخص سوگوار ہے، انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے اس بچی کے قتل میں 2 افراد ملوث ہوں تاہم بہت جلد ملزمان قانون کی گرفت میں ہوں گے۔

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی قصور کے واقعے پر مذمت کرتے ہوئے رد عمل کا اظہار کیا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا ایک بار پھر ظاہر ہوگیا کہ ہمارے بچے کتنے غیر محفوظ ہیں۔

View image on Twitter

 

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ ایسا واقعہ ہوا ہو، ہمیں اپنے بچوں کا تحفظ یقینی بنانے اور مجرموں کو سزا دینے کےلیے تیزی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ قصور واقعے کے ملزمان کو کٹھہرے میں لایا جائے گا اور ان کو قرار واقعی سزا دے کر ایک مثال قائم کی جائے گی۔