ہالینڈ: اب صرف جلد پر روشنی ڈال کر ذیابیطس اور دل کے امراض کی شناخت کرنا ممکن ہوگا ماہرین نے اس ضمن میں حیرت انگیز ٹیکنالوجی وضع کرلی۔
ماہرین کی وضع کردہ اس ٹیکنالوجی کے تحت شوگر اور دل کے امراض کی بروقت، کم خرچ اور درست شناخت میں مدد ملے گی اور یہ طریقہ استعمال میں بھی بہت آسان ہے۔ اس کا سادہ اصول یہ ہے کہ خون میں تیرتے ہوئے گلوکوز اور دیگر مائعات جلد میں موجود پروٹین اور دیگر بافتوں (ٹشوز) سے ’کسی گوند کی طرح‘ چپک جاتے ہیں۔ جلد پر روشنی ڈال کر ان کا معائنہ کرکے مریض کو ذیابیطس اور دیگر بیماریوں سے خبردار کیا جاسکتا ہے۔
ہالینڈ کی یونیورسٹی آف گروننجن کے پروفیسر بروس وولفن بیوٹل اوران کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ جلد اور رگوں کے اطراف جمع ہونے والے ان پروٹین کو طبی زبان میں ’گلائسیشن اینڈ پراڈکٹس‘ یا ’اے جی ای‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جسم میں جمع ہوکر ٹشوز اور خون کی نالیوں کی دیواروں کو سخت کردیتے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ بھی بنتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی عمر کےساتھ ساتھ ہمارے جسم کے ٹشوز میں اے جی ای جمع ہوتے رہتے ہیں لیکن ذیابیطس کے مریضوں میں ان کے جمع ہونے کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور پھر شوگر کے مرض کا ابتدائی مقام آجاتا ہے۔ اس طرح بروقت انتظامات کے بعد مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے اور جلد میں منعکس ہونے والی روشنی سے ان کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جلد میں اے جی ای کی سطح معلوم کی جاسکتی ہے کیونکہ اے جی پروٹین دیگر کے مقابلے میں رنگ برنگی اور دمکنے والی (فلورسینٹ) روشنیوں کو خاص انداز میں منعکس کرتے ہیں۔ اسے ناپنے کے لیے ہالینڈ کی ایک کمپنی نے ایک دستی آلہ بنایا ہے جسے اے جی ای ریڈر کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ جلد کے اندر روشنی پھینکتا ہے اور واپس آنے والی روشنی کو دیکھ کر اے جی ای کی مقدار سے آگاہ کرتا ہے۔
اس ضمن میں پروفیسر بروس اور ان کے ساتھیوں نے 30 سالہ سروے کیا جس میں 70 ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔ شروع میں تمام شرکا دل کے امراض اور ذیابیطس سے دور تھے۔ اس کے کچھ عرصے بعد نوٹ کیا کہ جن افراد میں اے جی کی شرح زیادہ تھی وہ شوگر اور دل کے امراض مٰیں زیادہ گرفتار ہوئے یا اس کے امکانات بڑھ گئے۔
لیکن دوسرے ڈاکٹروں اور طبی ناقدین نے زور دیا ہے کہ اے جی اے ریڈر اور اس کے دیگر پہلوؤں پر مزید غور کی ضرورت ہے تاکہ غلط نتائج اور غیرضروری پریشانی سے بچا جاسکے۔