218

طب کا نوبیل انعام کینسر پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے نام

کینسر کے علاج میں انقلابی طریقہ کار کو دریافت کرنے والے امریکی اور جاپانی سائنسدانوں کو طب کے نوبیل انعام دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

جیمز ایلیسن اور تاشیوکو ہونجو کو طب کے نوبیل انعام کے ساتھ 90 لاکھ سوئیڈش کرونر بھی دیئے جائیں گے۔

ان دونوں سائنسدانوں کو نوبیل انعام دینے کی وجہ ان کی جانب سے یہ دریافت بنی کہ جسمانی دفاعی نظام کو کس طرح کینسر زدہ خلیات پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔

جسمانی دفاعی نظام عام طور پر ایسے خلیات کو تباہ کرتا ہے جن میں تبدیلیاں آچکی ہوں، مگر کینسر زدہ خلیات جسمانی دفاعی نظام سے چھپنے کے طریقے ڈھونڈ نکالتے ہیں، جس سے انہیں پھیلنے کا موقع ملتا ہے۔

متعدد اقسام کے کینسر اسی طرح جسمانی میکنزم سے خود کو بچاتے ہیں۔

امریکی اور جاپانی سائنسدانوں کی دریافت سے کینسر کے علاج کو موثر بنانے میں مدد ملے گی اور ایسی ادویات کی تیاری ممکن ہوسکے گی جو کہ کینسر زدہ خلیات کو جسمانی دفاعی نظام سے چھپنے نہیں دیں گی۔

ان ادویات کے مضر اثرات ہوتے ہیں مگر یہ موثر بھی ثابت ہوتی ہیں، بلکہ کچھ کیسز میں تو کینسر کے آخری مراحل پر بھی انہوں نے کام کیا، جو کہ ناقابل علاج سمجھے جاتے ہیں۔

نوبیل اسمبلی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ٹیکساس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جیمز ایلیسن نے ایک ایسے پروٹین پر تحقیق کی جو کہ جسمانی دفاعی نظام کو روکنے والے بریک کا کام کرتا ہے ہے، انہوں نے احساس کیا کہ اس بریک کو ختم کرنے سے ہمارے دفاعی خلیات رسولی پر حملہ کرسکتے ہیں، جس کے بعد انہوں نے ایک نیا تصور تشکیل دیا جس سے مریضوں کے علاج کے لیے نیا طریقہ کار بنانے میں مدد مل سکے گی۔

اسی طرح کیوٹو یونیورسٹی تعلق رکھنے الے پروفیسر تاشیوکو ہونجو ایک جسمانی دفاعی خلیات میں ایک ایسا پروٹین دریافت کیا جو کہ بریک کا کام کرتا ہے، مگر اس کا میکنزم مختلف ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ انٹرنیشنل ایجنسسی فار ریسرچ آن کینسر ( آئی اے آر سی) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2018 میں دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 81 لاکھ کینسر کے نئے کیسز سامنے آنے جبکہ 96 لاکھ مریضوں کی موت کا امکان ہے۔

اموات کی شرح میں اضافے کی وجہ آبادی کا بڑھنا اور بوڑھا ہونا، ترقی پذیر ممالک میں قوموں کا صحت مند نہ ہونا اور بڑی معیشتوں کے ساتھ منسلک افراد کا خطرناک روایتی رہن سہن ہونا ہے۔