43

پاکپتن واقعہ کی انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

اسلام آباد۔آئی جی سندھ کلیم امام نے انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ، 24 اگست کو وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے متعلقہ پولیس افسران کو آئی جی پنجاب کے علم میں لائے بغیر رات 10 بجے طلب کیا،رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے آئندہ وزیراعلی کسی بھی پولیس افسر کو براہ راست دفترنہ بلائیں اورآئی جی کی ہدایت کے بغیرافسرکووزیراعلی،وزرا،دیگرسرکاری دفاترمیں جانیکی اجازت نہ ہو،وزیراعلی آفس میں آنے والی شکایات ازالے کے لیے آئی جی کو بھجوائی جائیں۔بدھ کو پاکپتن واقعہ کی انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی،رپورٹ آئی جی کلیم امام نے جمع کرائی، رپورٹ میں کہا گیا کہ 24اگست کو وزیراعلیٰ پنجاب نے پولیس افسران کو رات 10بجے طلب کیا تھا۔

وزیراعلیٰ نے متعلقہ افسران کو آئی جی پنجاب کو بغیربتائے طلب کیا تھا، مانیکا فیملی کے قریبی دوست احسن اقبال جمیل وزیراعلیٰ کی دعوت پر ان کے دفتر آئے تھے، وزیراعلیٰ کے پی ایس او حیدر علی نے آر پی او ساہیوال کو کمیٹی روم میں بٹھایا تھا، سی ایل او رانا عمر فاروق نے ڈی پی او پاکپتن کو کمیٹی روم میں بٹھایا تھا، سا دوران احسن جمیل اقبال بھی وہاں پہنچ گئے تھے، اسی دوران وزیراعلیٰ کمیٹی روم میں داخل ہوئے تو ان کا عملہ کمیٹی روم سے چلا گیا، احسن جمیل نے مانیکا خاندان کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں شکایت کی، احسن اقبال جمیل نے پولیس کی خاور مانیکا کی بیٹی کے ساتھ پکڑنے اور دھکے دینے کی شکایت کی، احسن اقبال جمیل نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے سے خاور مانیکا کے بچے شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے، متعدد دوستوں کے ذریعے پیغامات کے باوجود پولیس نے ذمہ داروں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا، رپورٹ میں کہا گیا کہ احسن جمیل اقبال کو شک تھا خاور مانیکا کے بھائیوں سے تنازع کے سبب معاملہ حل نہیں ہو رہا، خاور مانیکا کی سابقہ اہلیہ کی دوسری شادی کے بعد مانیکا خاندان میں تناؤ تھا، بچوں کو شک تھا کہ ان کے چچاؤں کی سیاسی واستگی مخالف سیاسی جماعت سے ہے۔

اسی لئے انہیں مسئلہ حل نہ ہونے پر کسی سازش کا شک تھا، ڈی پی او پاکپتن نے آر پی او وزیراعلیٰ کے سامنے پر اعتماد طریقے سے اپنی پوزیشن واضح کی، ڈی پی او نے احسن اقبال جمیل سے کہا کہ اگر پیغامات کا مطلب کسی ڈیرے پر جا کر معافی مانگنا ہے تو نہیں جاؤں گا، احسن جمیل اقبال اور پولیس آفیسر کی گفتگو کے دوران وزیراعلیٰ نے کوئی مداخلت نہیں کی، وزیراعلیٰ پنجاب نے آر پی او ساہیوال کو معاملہ ذاتی طور پر دیکھ کر فوری حل کی ہدایت کی، آر پی او ساہیوال پر جرح میں سامنے آیا کہ یہ میٹنگ دوستانہ، خوشگوار ماحول میں ہوئی تھی، وزیراعلیٰ پنجاب بذات خود پولیس افسران کی تواضع کرتے رہے، وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے ملاقات کا مقصد ڈی پی او، آر پی او کو واقعے کی حساسیت بتانا تھا، ملاقات میں احسن اقبال جمیل کا رویہ شکایت کا ازالہ نہ ہونے پر گہرے رنج کا تھا، احسن اقبال جمیل سمجھتے تھے کہ واقعات کا ازالہ نہ ہونے سے مانیکا خاندان میں تناؤ پیدا ہوا، احسن اقبال جمیل نے کہا کہ ان کا اقدام کسی پولیس افسر کو ناگوار گزارا تو وہ اس پر معذرت خواہ ہیں، وزیراعلیٰ نے بطور میزبان ملاقات کا اہتمام کیا۔

وزیراعلیٰ نے احسن جمیل اقبال کی افسران سے ملاقات کروائی تا کہ وہ اپنے خدشات بتا سکیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ نے پولیس افسران کو ایک ’’بڑے‘‘ کے طور پر طلب کیا تا کہ قبائلی وایت کے تحت معاملہ حل ہو، اس دوران پولیس افسران ہراساں نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی دباؤ کا احساس ہوا، ڈی پی او پاکپتن کو ایک اجنبی کے ساتھ اس طرح آمنا سامنا کرنا پسند نہیں آیا، ڈی پی او نے محسوس کیا کہ وزیراعلیٰ اور آر پی او کے سامنے کوئی اجنبی باز پرس کررہا ہے، ڈی پی او نے محسوس کیا کہ اسے دبایا جا رہا ہے جو انہیں ناگوار گزرا، ڈی پی او نے یہ بات نہیں کی اس پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا یا ہراساں کیا گیا، جائزہ لینے سے یہ سامنے آتا ہے کہ احسن اقبال جمیل کا کوئی اقدام ایسے نہیں جو قابل دست اندازی پولیس ہو، احسن اقبال جمیل میٹنگ میں بطور شکایت کنندہ موجود تھا۔

وزیراعلیٰ نے نہ تو کوئی تحریری احکامات جاری کئے نہ پولیس کو کوئی ہدایت جاری کیں، وزیراعلیٰ نے آر پی او کو معاملے کو اپنے طور پر حل کرنے کیلئے کہا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اقدام پولیس کے معاملات میں مداخلت نہیں ہے، رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ آئندہ وزیراعلیٰ کسی بھی پولیس افسر کو براہ راست دفتر نہ بلائیں، اگر کسی افسر سے متعلق معاملہ ہو تو اسے آئی جی کے ذریعے بلایا جائے، وزیراعلیٰ آفس میں آنے والی شکایات ازالے کیلئے آئی جی کو بھجوائی جائیں،آئی جی کی ہدایت کے بغیر افسر کو وزیراعلیٰ، وزراء، دیگر سرکاری دفاتر میں جانے کی اجازت نہہو۔