واشنگٹن ۔ امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ حکومت کو چھ مسلم ممالک پر سفری پابندی مکمل طور پر نافذ کرنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیلٹ عدالتیں جو بھی فیصلہ کریں جب تک سپریم کورٹ معاملے کی سماعت کا فیصلہ نہیں کرتی سفری پابندیاں برقرار رہیں گی،پابندی کی قانونی حیثیت کے متعلق ذیلی عدالتوں میں مقدمات جاری رہیں گے،فیصلے میں سپریم کورٹ کے نو میں سے سات ججوں نے پابندی کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دیا، فیصلے کے بعد اب چاڈ، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی مکمل طور پر نافذ العمل ہوگی۔
امریکی میڈیا کے مطابق امریکہ کی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کو چھ مسلمان ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر لگائی جانے والی پابندی کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی اجازت دیدی ہے البتہ پابندی کی قانونی حیثیت کے متعلق ذیلی عدالتوں میں مقدمات جاری رہیں گے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ کے نو میں سے سات ججوں نے پابندی کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کے حق میں فیصلہ دیا۔
عدالتِ عظمی کے دو لبرل ججوں رتھ بیڈر اور سونیا سوٹومیئر نے اکثریت کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ذیلی عدالتوں کی جانب سے صدارتی حکم نامے کی جزوی معطلی برقرار رہنی چاہیے۔عدالت نے اپنے فیصلے کی وجوہات بیان نہیں کی ہیں۔امریکی سپریم کورٹ نے دونوں درخواستوں پر جاری کیے جانے والے اپنے مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ذیلی عدالتوں کی جانب سے حکم نامے میں شامل کی جانے والی شرائط معطل رہیں گے اور اس دوران سان فرانسسکو اور رچمنڈ کی وفاقی اپیلٹ عدالتیں اس حکم نامے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کریں گی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپیلٹ عدالتیں جو بھی فیصلہ کریں سفری پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک سپریم کورٹ دوبارہ اس معاملے کی سماعت کا فیصلہ نہیں کرتی۔ غالب امکان ہے کہ سپریم کورٹ دوبارہ اس معاملے کی سماعت کرے گی۔فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سفری پابندیوں کا حکم نامہ دوبارہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا تو قوی امکان ہے کہ عدالت اس کے حق میں فیصلہ دے گی۔
مسلمانوں کی امریکہ آمد پر مکمل پابندی صدر ٹرمپ کا ایک اہم انتخابی وعدہ تھا۔ ٹرمپ نے سفری پابندیوں کا پہلا حکم جنوری میں صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے چند روز بعد جاری کیا تھا جس میں کئی مسلمان ملکوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔اس حکم نامے پر امریکہ کی وفاقی عدالتوں نے عمل درآمد روک دیا تھا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے مارچ میں ایک تبدیل شدہ حکم جاری کیا تھا جس کی مدت رواں سال ستمبر میں ختم ہوگئی تھی۔
تیسرا حکم نامہ ستمبر میں خاتمے ہونے والی پابندی کی جگہ لینے کے لیے جاری کیا گیا تھا جسے فورا ہی عدالتوں میں چیلنج کردیا گیا تھا۔صدر ٹرمپ کا موقف ہے کہ امریکہ کو مسلمان شدت پسندوں کی دہشت گردی سے بچانے کے لیے سفری پابندیاں عائد کرنا ضروری ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سفری پابندی سے متعلق جاری کیا جانے والا یہ تیسرا حکم نامہ تھا جس میں چھ مسلمان ملکوں ایران، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن اور چاڈ – کے علاوہ شمالی کوریا اور وینزویلا کو بھی شامل کیا گیا تھا۔لیکن امریکی ریاستوں میری لینڈ اور ہوائی کی عدالتوں نے ٹرمپ حکومت کے اس حکم نامے میں دو شرائط شامل کرتے ہوئے اس پر جزوی عمل درآمد کی اجازت دی تھی جس کے خلاف ٹرمپ حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ذ
یلی عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں حکم نامے میں شامل چھ مسلمان ملکوں کے ان شہریوں کو امریکہ میں داخلے کی اجازت دیدی تھی جن کے امریکہ میں قریبی رشتے دار موجود ہوں یا جن کا کسی امریکی ادارے یا کمپنی سے باضابطہ تعلق ہو۔لیکن عدالتِ عظمی کے فیصلے کے بعد اب چاڈ، ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی مکمل طور پر نافذ العمل ہوگی۔ٹرمپ انتظامیہ کے حکم ناے میں شمالی کوریا کے شہریوں اور وینزویلا کی حکومت کے بعض عہدیداروں کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی لیکن ذیلی عدالتوں نے ان پابندیوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا جس کے باعث وہ پہلے سے ہی نافذ العمل ہیں۔
نئی پابندیوں کے حکم نامے کو امریکی ریاست ہوائی اور امریکہ میں شہری آزادی کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیم ‘امریکن سول لبرٹیز یونین’ نے بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا جن میں درخواست گزاروں کا موقف تھا کہ سفری پابندی سے متعلق صدر ٹرمپ کے نئے حکم نامے میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ؤ گیا ہے جو امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔