117

روشن خیالی کے نام پر مغرب کا نظریہ قبول نہیں ٗ مولانا فضل الرحمن 

سوات ۔جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ فوج نے پاکستان میں قیام امن کیلئے بڑا کام کیا مگر علماء کرام مخالف قوتوں کے حوصلے پست نہ کرتے تو آج ملک میں امن نہ ہوتا‘ علماء فحاشی اور عریانی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو ان کو انتہا پسند کہا جاتا ہے تاہم جدیدیت کے نام پر ہمیں روشن خیالی اور مغرب کا نظریہ قبول نہیں‘ ہم ملک میں قرآن و سنت کے نظام کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔

وہ سوات میں جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے ‘ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں تنگ نظر اور انتہا پسند کہا جاتا ہے اور یہ لوگ فحاشی و عریانی کو روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ ہم قرآن و سنت کی بات کرتے ہیں‘ عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں ہم فحاشی و عریانی ‘ شراب کی محفلوں کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو ہمین انتہا پسند کہا جاتا ہے‘ میں ایسے لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی یہ سوچ آج سے نہیں بلکہ تاریخ اسلام کے آغاز سے ہم اس سوچ کو دیکھ رہے ہیں۔ 

ہم روشن خیالی کو مسترد کرتے ہیں اور اس کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہیں گے‘ آج کے روشن خیال بھی اسلام کی آمد سے قبل والی باتیں کررہے ہیں جن کے عزائم ہم ناکام بنائیں گے۔ ہم ان قوتوں کو بتانا چاہتے ہیں جدیدیت کے نام پر روشن خیالی اور مغرب کا نظریہ حیات ہمیں قبول نہیں ہے ہم پاکستان میں قرآن و سنت کے نظام کی بات کریں گے اور یہی نظام چاہتے ہیں۔ سوات کی سرزمین نے بہت مشکل حالات دیکھے ہیں یہاں کے عوام نے خون بہتا ہوا دیکھا ہے‘ گھر لوٹتے ہوئے دیکھا ‘ گھروں کو چھوڑ کر دیکھا ۔ میں ان قوتوں سے کہتا ہوں جو پشتونوں کے غم میں پگھلتے جارہے ہیں جب سوویت یونین افغانوں پر بمباری کررہا تھا تو آپ لوگ سوویت یونین کے ساتھ تھے۔

آج امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو ان لوگوں نے امریکہ کا ساتھ دیا اور آج بھی یہ لوگ پشتونوں کے قتل عام کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب صوبہ میں آپریشن شروع ہوا تو ہم نے کہا کہ ہمیں امن چاہیے لیکن آپ جو پالیسیاں اختیار کررہے ہیں اور فوج کو گلی کوچوں تک پہنچا ریہ ہیں یہ شاہد کل کیلئے ہمارے لئے کوئی خوبصورت تاریخ مرتب نہیں کرے گی ۔ آپ نے فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔

ہم نے فوجی آپریشن پر تحفظات ظاہر کئے تو ہمیں کہا گیا کہ جمعیت دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔ ہمیں طالبان کے ساتھ ہونے کے طعنے دیئے گئے لیکن ہم نے آئین و قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے بیانیہ دیا ہمارے علماء نے اس مسلح جنگ کے خاتمے کیلئے کردار ادا کیا انہوں نے کہا کہ فوج نے قیامامن کیلئے بڑا کردار ادا کیا لیکن جمعیت اور دینی قوتیں مخالف قوتوں کو شکست نہ دیتیں تو آج ملک میں امن قائم نہ ہوتا ان دینی قوتوں کی قدر کرو اور علماء کرام کی قدر کرو۔