129

بلوچستان کے2سابق وزرائے اعلیٰ سپر یم کورٹ طلب 

کوئٹہ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے سابق وزرائے اعلی بلوچستان مالک بلوچ اور ثنااللہ زہری کو آج (منگل کو) عدالت طلب کرلیا جبکہ اپنے ریمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں گورننس کے لیے تین وزرائے اعلیٰ آئے انہوں نے عوام کے لیے کیا کیا؟ یہاں آکر بتائیں۔سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پرمشتمل تین رکنی بینچ نے کوئٹہ میں سرکاری اسپتالوں، اسکولوں اور کالجوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کی جو عوامی شکایات پر کی گئی۔

کیس کی سماعت کے سلسلے میں چیف سیکریٹری، سیکریٹری صحت، سیکریٹری تعلیم اور دیگرحکام عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان رف عطا نے صوبائی حکومت کی جانب سیکیسز کی پیروی کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیکل کالجز معیاری نہیں، نجی کالجوں میں بچوں سے 20سے 25لاکھ روپے لیے جاتے ہیں، ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وہاں یہ بزنس تو نہیں ہے، ہماری کوشش ہے کہ 2کروڑ بچوں کو رقم واپس ہو۔

چیف جسٹس نے میڈیکل کالج کے لیے 8لاکھ 56 ہزار سے زائد فیس ری فنڈ کرنے کا حکم دیا۔اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیسی ہے، ہم نے اس سے متعلق بھی ایس او پی دی ہے، میں کچھ اسپتالوں کا دورہ بھی کرنا چاہوں گا، بلوچستان ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

سیکریٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ مریضوں کا کوئی علاج نہیں کررہا۔سیکریٹری صحت نے مزید بتایا کہ 21فیصدنان ڈیولپمنٹ بجٹ ہے اور صرف 6فیصد ترقی پر خرچ ہوتا ہے، بلوچستان میں کوئی پرائیویٹ اسپتال نہیں، ایک کالج ملٹری میڈیکل بورڈ کے زیر انتظام ہے۔سیکریٹری صحت کی بریفنگ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وسائل صوبوں نے پیدا کرنے ہیں،آپ وفاق کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلائیں ان وزرائے اعلی کو جو یہاں 4 سال اقتدار میں رہے، صوبے کے عوام کے لیے انہوں نے کیا کیا؟ یہاں آکر بتائیں، گورننس کے لئے 3وزرائے اعلی آئے، انہوں نے کیا کیا؟عدالت نے آج (منگل کو) سابق وزرائے اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنااللہ زہری کوطلب کرلیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحت کامسئلہ بلا بن گیا ہے، ممکن نہیں کہ 500ارب روپے ایک دن میں مل جائیں۔

اس کو ڈنگ ٹپا پالیسی کے طور پر نہ لیں، اپنی خامیوں کودور کرنے کے لیے مختصر اور طویل مدتی پالیسیاں بنائیں، پالیسی ابھی منظور نہیں ہوئی، ماضی کی بجائے آگے دیکھیں اور مسئلہ حل کریں۔چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری بلوچستان سے مکالمہ کیاکہ حکومت کے پاس چندہفتے باقی رہ گئے ہیں، پھر کون پالیسی منظور کرے گا؟ ہمارا مقصد اکھاڑ پچھاڑ کرنا نہیں، ضرورت ہے کہ عوام کو سہولت ملے آئین نے ہمیں پابند کردیا ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کیلئے اپنا فرض نبھائیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کراچی میں پانی کے مسئلے پر وفاق نے ہمارے نوٹس کے بعد فنڈز دیئے، مسئلہ حل ہوگیا۔علاوہ ازیں چیف جسٹس پاکستان نے سول اسپتال کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف شعبوں کا جائزہ لیا، اس موقع پر وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی ان کے ہمراہ تھے۔چیف جسٹس نے سول اسپتال میں صفائی کی صورتحال پراظہار برہمی کیا اور غفلت برتنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کے احکامات جاری کئے۔