255

چیف جسٹس نے دلی خواہش کا اظہار کر دیا

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ جو معاملات اٹھائے ہیں انہیں ختم کرکے جاؤں ورنہ بعد میں نعرے لگیں گے کہ باتیں کرکے چلا گیا اور کیا کچھ نہیں۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران سیکریٹری صحت سمیت دیگر حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت سیکریٹری صحت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں کمی سے متعلق عبوری رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ آپ کے حکم کے مطابق 11 معاملات پر کام کرنا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اے کٹیگری میں 739 کیسز تھے، جن میں سے 710 کیسز کا جائزہ لیا گیا اور 21 کیسز کمپنی کی درخواست پر کمیٹی اجلاس میں بھیجے گئے۔

عدالت میں پیش کردہ عبوری رپورٹ میں بتایا گیا کہ کٹیگری بی میں 25 کیسز تھے، جن میں سے 23 کا جائزہ لیا گیا جبکہ 2 کیسز کمپنی کی درخواست پر کمیٹی کے اجلاس میں بھیجے گئے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کٹیگری سی میں 55 کیسز تھے، جن میں 32 کا جائزہ لیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ڈی کٹیگری میں 410 کیسز ہیں اور رواں ماہ میں ان کا جائزہ لے لیا جائے گا، اس کے علاوہ مقررہ قیمت سے متعلق 390 کیسز بھی اپریل میں دیکھیں جائیں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے کسی کو بھی کسی اور فورم پر جانے کی اجازت نہیں دینی، مفاد عامہ کے جن معاملات میں ہاتھ ڈالا ہے ان کو یہیں حل کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کا اپیل کا حق متاثر ہوتا ہے تو ہوتا رہے، مئی کے پہلے ہفتے میں اس معاملے پر مکمل رپورٹ دے دیں تفصیلی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

اس دوران عدالت میں موجود شہری جاوید اکھائی نے کہا کہ ادویات کی صنعت مختلف ٹیکسوں کی مد میں 25 ارب روپے ادا کرتی ہے جبکہ اس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے، میں نے حکومتوں کو کہا تھا کہ ادویات پر ٹیکسوں کو ختم کیا جائے اور انہیں دوسرے پرتعیش سامان پر لگا کر ادویات پر ریلیف دیا جائے۔

شہری کی بات پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ ادویات کی صنعت کو ٹیکس فری قرار دے دیا جائے، جس پر شہری نے کہا جی اس شعبے کو ٹیکس فری کیا جائے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹیکس لگانے یا ہٹانے کا فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے اور یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، عدالت نے پہلے سے بنائے گئے قوانین کے مطابق معاملات کو دیکھنا ہے، آپ اگر اس معاملے پر کوئی مہم چلا رہے ہیں تو ارکان پارلیمان سے رابطہ کریں۔

سماعت کے دوران فارما بیورو کے وکیل نے کہا کہ کیس کی کوئی ایک مقرر تاریخ دے دی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ سے زیادہ جلدی میں ہوں، میری خواہش ہے کہ جو معاملات اٹھائے ہیں انہیں ختم کرکے جاؤں ورنہ بعد میں آپ نعرے لگاتے پھریں گے کہ باتیں کر کے چلا گیا کیا کچھ نہیں۔

میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نے مفاد عامہ کو دیکھنا ہے کلائنٹ کو نہیں، آپ نے میرے ساتھ مل کر انصاف کرنا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ادویات سے متعلق کیس کی سماعت کو 15 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے حکام سے قیمتوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی، ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ 15 مئی کو دن رات بیٹھنا پڑے لیکن معاملہ پورا سن کر اٹھیں گے، واضح کردوں کہ کوئی التوا نہیں دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل عدالت نے ادویات ساز کمپنیوں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان ( ڈریپ) سے ادویات کی قیمتوں کے تعین کے لیے پالیسی مرتب کرنے کے ساتھ تمام معاملات کا طریقہ کار طلب کیا تھا۔

اس کے علاوہ 21 فروری 2018 کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ادویات ربڑی تھوڑی ہے جس کا دل چاہے اس قیمت پر فروخت کی جائے، اگر ادویات کی قیمتیں بڑھنے کا کوئی طریقہ کار ہے تو اس کا جائزہ لے لیتے ہیں، کسی کی مجبوری کا فائدہ بھی نہیں اٹھانا چاہیے۔