216

متحدہ مجلس عمل کا بھارتی دہشتگردی کیخلاف احتجاج کا اعلان

اسلام آباد۔متحدہ مجلس عمل کے صدر وکشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانافضل الرحمان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی دہشتگردی کے حالیہ واقعہ کے خلاف جمعہ کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مظلوم کشمیریوں سے حکومت کی طرف سے صرف یکجہتی کا اعلان کافی نہیں ہے پوری قوم کو سڑکوں پر آکر سخت احتجاج کرنا ہوگا۔ یوم احتجاج کے موقع پر ملک بھر میں بھارت مردہ باد امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد ہوگا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں کون ’’کنزرویٹوفرینڈزآف اسرائیل ‘‘ہے جنہیں ہمارے اس قسم کے احتجاج پر تکلیف ہوتی ہے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا جاتا ہے کونسی قوتیں ہیں جنہوں نے آج تک کشمیر کمیٹی ، وزارت خارجہ ، وزارت امور کشمیراور آزاد کشمیر حکومت کا مشترکہ نمائندہ مشاورتی فورم نہیں بننے دیا ۔ اداروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سیاستدانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو استعفے دے کر انتخابات لڑیں پانچ ووٹ بھی نہیں ملیں گے ۔ قوم پھر بھی سیاستدانوں کو ووٹ ڈالے گی ۔ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا سال میں ایک اجلاس ہوتا ہے اس پر تو کوئی بات نہیں کرتا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کہاں ہوتے ہیں ۔ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا اور اقوا م متحدہ کے ایجنڈے سے انحراف کرتے ہوئے اس کے حلف پیش کئے جارہے تھے ۔ پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر کوئی واضح اور دوٹوک پالیسی و حکمت عملی نہیں ہے آج تک یہ طے نہیں کرسکے کہ اس کا سیاسی حل ہے یا فوجی حل ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ صدر وزیراعظم ، وزیر خارجہ پر کوئی تنقید نہیں تنقید کیلئے چیئرمین کشمیر کمیٹی رہ گیا ہے اور جب ہم ذمہ داری کا احساس دلائیں تو ان کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں ۔ سانحہ شوپیاں کے خلاف تین روز پہلے میں نے ملک گیر یوم احتجاج کا اعلان کیا مگر میڈیا نے ہمارے اعلان کو نظرانداز کردیا افغان علاقے قندوز میں ڈیڑھ سو حفاظ کرام کو شہید کردیا گیا فلسطین میں اسرائیلی دہشتگردی میں اضافہ ہوگیا شوپیاں میں بیس سے زائد نوجوانوں کو دہشتگردی کا نشانہ اور سینکڑوں لوگوں کو زخمی کیا گیا ۔دہشتگردی کے یہ تمام واقعات امریکہ بھارت اوراسرائیل گٹھ جوڑ کی کڑیاں ہیں ۔ جب ہم کہتے ہیں اسرائیل مردہ باد بھارت مردہ باد امریکہ مردہ باد وہ کون ان ممالک کے خیرخواہ ہیں جنہیں ہمارے اس احتجاج پر تکلیف ہوتی ہے ۔ پاکستان میں کون ’’کنزرویٹوفرینڈزآف اسرائیل ‘‘ہے ۔ کشمیر میں بھارت نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے مختلف علاقوں میں بچوں اور خواتین کو شہید کیا جارہا ہے ۔

حکومت سے یکجہتی تک محدود نہ رہے بلکہ جمعہ کو بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا جائے ۔ پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے پاکستان کی فضائیں ، ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کردیئے گئے ملک کو بیچا گیا اس کے عزت و وقار کا سودا کیا گیا اور مسئلہ کشمیر کو سائیڈ لائن کردیا گیا ۔ یہ تھی ان حکمرانوں کے نزدیک مسئلہ کشمیر کی اہمیت ۔ 2008کے بعد جب کشمیر کمیٹی کی سربراہی میرے سپرد کی گئی ہمارا اعزاز ہے بھر پور طریقے سے یہ مسئلہ دوبارہ اجاگر ہوا اب اس پر اقوام متحدہ میں بھی بات ہے ہر عالمی فورم پر بات ہوتی ہے یورپی یونین میں اس پر بات ہورہی ہے ۔ پاکستان کا وزیراعظم جہاں جاتا ہے اس پر بات کرتا ہے ۔ کشمیر کمیٹی کر کردار ہی محدود رکھا گیا ہے ۔ ہم مسئلہ کشمیر کو گمنامی سے نکال کر منظر عام پر لائے ہیں ۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی جس بنیاد پر قائم کی گئی وہ مسئلہ کشمیر پر قومی موقف کو برقرار رکھنا اور اس میں تسلسل نہ ٹوٹنے دینا ہے آج تک کشمیر کمیٹی قومی موقف کو اجاگر کرنے میں سرگرم رہی اور مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف کو تحلیل نہیں ہونے دیا اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے آج تک طے نہیں کرسکے یہ مسئلہ کشمیر کا فوجی حل ہوگایا سیاسی حل ہم بھارت سے بھی یہی کہنا چاہتے ہیں کہ تنازعہ کشمیر کا سیاسی حل ممکن ہے مگر ہمارے ہاں سیاستدانوں کے ہاتھ پاؤں کیوں باندھ دیئے جاتے ہیں۔

تنقید صرف سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کیلئے رہ جاتی ہے ۔ سیاہی پارلیمنٹ پر کیوں ملی جاتی ہے ۔ پاکستان میں ایک جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی قائم اس کا سال میں ایک اجلاس ہوتا ہے اس پر کوئی بات نہیں کرتا ۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کرکے یکجہتی کی فضاء کو متاثر نہ کیا جائے کشمیر وہ واحد ایشو ہے جس پر پوری قوم متفق ہے ۔ صدر اور وزیراعظم پر کوئی تنقید نہیں کرتا وزیر خارجہ کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتا چیئرمین کشمیر کمیٹی پر تنقید سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اصل امیدیں ہم ہی سے وابستہ ہیں کسی کی تنقید کو سن کر ہم گھر نہیں بیٹھیں گے ہر فرد کشمیر کے ساتھ وابستہ ہے ۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں اتنے گئے گزرے نہیں ہیں یہ بازو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں ہم لوگوں کے قد کاٹ کو بھی سمجھتے ہیں اور ان کے بدن کو بھی ملک میں جو حکمران جسے میں اپوزیشن سمجھتا ہوں ان کو کیوں کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ساری حکومت کو کٹہرے میں لاکھڑا کردیا جاتا ہے ووٹ پھر بھی سیاستدانوں کو ملنے ہیں سیاستدانوں کو کٹہرے میں کھڑاکرنے والے اداروں سے کہتا ہوں کہ وہ استعفے دے کر الیکشن لڑ لیں پانچ ووٹ بھی نہیں ملیں گے ۔ مسئلہ کشمیر پر سیاستدانوں کا اختیار ہے کتنا کشمیر کمیٹی نے تجویز دی کہ کمیٹی وزارت خارجہ ، وزارت امور کشمیر اور آزاد کشمیر حکومت کا مشترکہ نمائندہ مشاورتی فورم بنے ہر نمائندہ اس میں بیٹھے اس فورم کے بننے میں رکاوٹ کیا ہے ۔میڈیا سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں لاشیں گرنے کا انتطار کرتا ہے داخلی بحران کے حوالے سے ملک میں میڈیا مچھلی منڈی لگاتا ہے مسئلہ کشمیر کو کیوں فراموش کردیتا ہے کیوں اس پر تسلسل سے بات نہیں کرتا میڈیا کو چاہیے کہ وہ صحیح پیرائے میں تحقیقی رپورٹنگ کو ترجیحات میں شامل کرے اور ملکی عوامی اور دنیا کو اور پوری قوم کا ابلاغ دے ۔ انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ میں پریس کانفرنسیں اور جلسے کروکشمیر کمیٹی کے ساتھ میرا روزانہ کی بنیاد پر رابطہ ہے ہم نے ہر واقعہ کا ردعمل دیا ہے شوپیاں کے واقعے کے وقت بھی ہماری مجلس شوری کا اجلاس جاری تھا جس کے ایجنڈے کو مقبوضہ کشمیر جاری مظالم تک محدود کردیا گیا اور فوری طور پر یوم احتجاج کا اعلان کیا ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں حکومت ہے مجھ پر کوئی الزام ہے تو صوبائی حکومت نے کوئی کیس نہیں بنایا یہ جماعت ہے ہی الزام تراشی کی بات اور اپنا تعفن دوسروں پر پھینکنے کی کوشش کرتی ہے میں ان کے الزامات پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔