106

سرکاری اشتہار میں سیاسی قائد کی تصویر شائع نہ کرنیکا حکم

اسلام آباد۔ سپریم کورٹ نے سرکاری اشتہارات سے متعلق کیس میں حکم دیا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کسی بھی سرکاری اشتہار میں سیاسی قائد کی تصویر شائع نہ کی جائے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سرکاری اشتہارات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اس دوران سینئر صحافی اور آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی( اے پی این ایس)کے صدر حمید ہارون اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای)کے ضیا شاہد، صحافی اسد کھرل بھی پیش ہوئے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تصویروں کے ساتھ اپنی تشہیر کرنا مناسب نہیں ہے، یہ قوم کا پیسہ ہے اسے قوم کے پاس ہی رہنا چاہیے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ عوامی پیسہ ہے، اس سے خودنمائی نہیں ہونی چاہیے، اس دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پالیسی یا نعروں کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس اور حمید ہارون کے درمیان مکالمہ بھی ہوا، جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا کہ کیا حکومت جس طرح خود نمائشی اشتہارات دے رہی ہے کیا وہ ٹھیک ہے؟ اس پر حمید حارون نے کہا کہ ہم اس کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے، عدالت قانون کے مطابق جو فیصلہ کرے گی اے پی این ایس کو قبول ہوگا۔دوران سماعت ضیا شاہد نے عدالت کے سامنے اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا کہ سرکاری خرچ پر خود نمائی نہیں ہونی چاہیے، سی پی این ای چیف جسٹس کی مکمل حمایت کرتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزرا کے علاوہ ان کے رشتے داروں کے ماضی میں اشتہارات چھپتے رہے لیکن ادائیگیاں نہیں کی جاتی۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت اشتہارات چھپوا کر ادائیگیاں کیوں نہیں کر رہی، جس پر ضیا شاہد نے بتایا کہ اشہتاری کمپنیوں میں ڈان پیدا ہوچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 3 ماہ میں 90 کروڑ کے اشتہارات دیے گئے، یہ آپ کا کاروبار ہے اس کے بغیر آپ کا چینل اور اخبار بے معنی ہوجائے گا۔سماعت کے دوران ضیا شاہد نے بتایا کہ وزیر اطلاعات سندھ اشتہارات پر خورد برد پر جیل میں ہیں جبکہ ایک سال میں 25 چیکس 6 کروڑ روپے کے بنتے ہیں لیکن ان کی ادائیگیاں نہیں کی گئی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اشتہار کس نے دینا اور کتنا دینا یہ معاملہ بھی زیر سماعت ہے، ہم نے شفاف انتخابات کرانے کے لیے سرکاری اشتہارات میں خود نمائی پر پابندی لگائی۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر سرکاری اشتہارات میں کوئی تصویر نہیں چھاپی جائے گی، کوئی بھی سیاسی قائد کی تصویر کسی اشتہار میں شائع نہ ہو۔

اس موقع پر صحافی اسد کھرل نے بتایا کہ وفاقی اور خیبرپختونکوا حکومت اشتہارات کے حوالے سے گائڈ لائن پر عمل کر رہی ہے لیکن دیگر صوبے اس پر عمل نہیں کر رہے۔خیال رہے کہ 28 فروی کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے صوبائی حکومتوں کی تشہیری مہم کا نوٹس لیا تھا اور پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت کے سیکریٹری اطلاعات سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دیے گئے اشتہارات کی تفصیلات طلب کی تھیں۔بعد ازاں چیف جسٹس کی جانب سے وزیر اعلی شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کی مد میں خرچ ہونے والے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔