317

’فوج کا کسی این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے‘

راولپنڈی: پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ فوج کا ملکی سیاست کے کسی بھی این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کوئی ڈاکٹرائن ہے تو وہ نجی ٹی وی چینل پر دیئے گئے ایک انٹرویو کے مطابق پاکستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے ہے۔‘

جنوبی ایشیا میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان نے خطے میں اپنا کردار ادا نہ کیا ہوتا تو امریکا سپر پاور نہ ہوتا۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ مالی نقصان بھی ہوا، تاہم اس کی بحالی کے لیے معاشی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔

لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 کے آغاز کی صورتحال 2017 کے آغاز کی صورتحال سے بہت مختلف ہے، جہاں بھارت کی جانب سے متعدد مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جس میں کئی شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کی جانب سے دھمکی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھارت کی جانب سے کوئی دھمکی آتی ہے تو پورا پاکستان ایک ہوجاتا ہے چاہیے وہ ایک عام آدمی ہو یا کسی سیکیورٹی فورس کا اہلکار ہو۔

بھارت کی جانب سے خطرے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاک فوج بھارت کے خلاف کسی بھی جارحیت کے لیے بھرپور تیار ہے، قوم کو پاکستان کی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے سربراہ کے دورہ ایران کے بعد سے صوبہ بلوچستان میں سرحد پر سیکیورٹی اور اندرونی سیکیورٹی کے معاملات بہتر ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی فوج سعودی عرب نہیں بھیج سکتا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون کا معاہدہ موجود ہے اور اسی کے تحت فوج ٹریننگ کے لیے سعودی عرب جاتی ہے۔

بلوچستان کی سیکیورٹی کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ فوج کی زیادہ تر توجہ صوبے میں جاری معاشی ترقی اور ضربِ عضب کے تحت جاری آپریشن پر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تربت میں ایک ایونٹ منعقد کیا گیا تھا جس میں آرمی چیف نے اور ملک کے نامور گلوکاروں نے شرکت کی تھی، جہاں مقامی افراد نے رات گئے تک وہاں پر شرکت کی۔

کراچی کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2018 کا شہرِ قائد 2013 سے بہت مختلف ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2013 میں کراچی دنیا کا چھٹا سب سے خطرناک شہر تھا، تاہم اب پاکستان کا اس فہرست میں 67واں نمبر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں شٹر ڈاؤن ہڑتالوں کا نام و نشان ختم ہوگیا ہے اور یہاں پر معاشی سرگرمیان بہتر ہو رہی ہیں۔

آپریشن ردالفساد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں سیکیورٹی اداروں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں جس کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اگر ان اداروں کی محنت نہ ہوتی تو پاکستان میں یہ امن قائم نہ ہوتا۔

انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی اداروں نے 7 بڑے دہشت گرد نیٹ ورک ختم کیے ہیں اور اس عرصے میں 16 خودکش بمباروں کو گرفتار کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جو عناصر پاکستان کو پُرامن دیکھنا نہیں چاہتے، وہ ایسے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جو ان کے مقاصد میں پورا نہیں ہونے دیتے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں، تاہم یومِ پاکستان کی پریڈ کے دوران بھارتی ہائی کمشنر کو اپنی تہذیبی و اخلاقی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے مدعو کیا۔

پی ایس ایل فائنل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی فائنل کے لیے تیار نہیں تھا، لیکن اسے میچ سے قبل تیار کرلیا گیا، جبکہ پاکستان میں دیگر کرکٹ کے ایونٹ کے لیے راولپنڈی، پشاور، ملتان اور فیصل آباد کو بھی تیار کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے لیے بہت اہم تھا جس میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا فائنل اور اسلام آباد میں 23 مارچ کے لیے پریڈ ہونی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ایونٹ بہترین انداز میں گزر گئے ہیں، جس کے لیے اسلام آباد پولیس اور عوام کے شکرگزار ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کے فائنل میں لوگوں کا جوش و خروش اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کو دیکھ بے حد خوشی ہوئی۔

آئی ایم سی ٹی سی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں بات کرنا میرے اختیار میں نہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم سی ٹی سی کی کسی ایسی مہم کا حصہ نہیں بنے گا جو کسی دوسرے ملک کے خلاف ہوں۔

پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد شروع ہوا تھا، جسے افغانستان سے مدد مل رہی تھی۔

پاک فوج کی چیک پوسٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیک پوسٹیں اتنی نہیں ہیں جتنی بتائی جاتی ہیں، تاہم جب تک خطروں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا تب تک چیک پوسٹوں پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی چیک پوسٹس پر موجود جوان عوام کی حفاظت کے لیے ہی وہاں موجود ہے، جو کسی بھی خطرے کے خلاف پہلا دفاع ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے کردار کو مثبت انداز میں دیکھا جائے، پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں امن کی راہ ہموار ہو۔