319

ہم افغانستان میں اپنی جیت دیکھنا چاہتے ہیں، جم میٹس

کابل ۔ افغانستان غیر اعلانیہ دورے پر پہنچنے والے امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے کہا ہے کہ کچھ افغان طالبان کے عناصر افغان حکومت سے بات چیت کیلئے تیار ہیں، ہم افغانستان میں جیت دیکھنا چاہتے ہیں، تاہم یہ جیت فوجی طاقت استعمال کرکے نہیں بلکہ بات چیت ،مذاکرات اور سیاسی طریقے سے ہونی چاہیئے۔امریکی وزیر دفاع جم میٹس کی غیر اعلانیہ افغانستان آمد کو اس حد تک خفیہ رکھا گیا تھا کہ صحافیوں کو سختی کے ساتھ تاکید کی گئی تھی کہ وہ وزیر دفاع کے کابل ایئرپورٹ سے نکل کر امریکی ہیڈکواٹرز پہنچنے تک کوئی خبر شائع نہ کی جائے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے جاری رپورٹس کے مطابق افغانستان غیر اعلانیہ دورے پر پہنچنے والے امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے طیارے میں صحافیوں سے خصوصی بات چیت میں کہنا تھا کہ افغان سرحد کے ساتھ پاکستانی فوج کی جانب سے کیے گئے فوجی ا?پریشنز دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور در اندازی روکنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔جیمس میٹس کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کے کچھ عناصر نے افغان حکومت سے بات چیت میں دلچسپی دکھائی ہے، تاہم تمام طالبان سے بات چیف کا فی الحال کوئی امکان نہیں، ایسا ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے، تاہم سولہ سالہ خانہ جنگی اور لرائی سے تنگ آنے والے جنگجوں نے بات چیت میں رضا مندی دکھائی ہے اور ہم ایسے لوگوں کو مذاکرات کی میز پر خوش آمدید کہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکا افغان حکومت کے طالبان سے مذاکرات اور پاکستانی حکومت سے بات چیت کی حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان میں شکست نہیں جیت دیکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جیت کسی فوجی طاقت کے ذریعہ حاصل نہ ہو بلکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت میں سہولت کاری سے بھی جیت حاصل ہو سکتی ہے۔جم میٹس کا کہنا تھا کہ اصل جیت افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت اور سیاسی رضامندی ہے، جب کہ ملک کے سیکیورٹی حالات کیلئے اب افغان فوج بھی اس قابل ہو گئی ہے کہ وہ حالات اور سرحدوں کی حفاظت کرسکے۔ ایک سوال کے جواب میں میٹس کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذاکرات سے ناکامی ہوئی ہے، تاہم اس سے کوئی کامیابی بھی نہیں ہوئی ہے۔

افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان اب بھی ڈیڈ لاک ہے اور میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں۔جم میٹس کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کو اب کسی صورت دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے جیسے ماضی میں القاعدہ اسے اپنے مقصد کیلئے استعمال کرتی رہی ہے۔واضح رہے کہ حال ہی میں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے گزشتہ ماہ کے اختتام پر ’’کابل پراسس‘‘ نامی بین الاقوامی کانفرنس میں افغان طالبان کو مذاکرات کی غیر مشروط دعوت دی تھی، جب کہ طالبان کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ جواب سامنے نہیں آیا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اگست میں امریکی صدر کے افغانستان میں فوجی اہلکاروں کی تعداد بڑھانے کے اعلان کے بعد امریکی وزیر دفاع کا یہ دوسرا دورہ کابل ہے۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کو پہلے مرحلے میں مزید 800، اور اس کے بعد ساڑھے تین ہزار بڑھا کر 14000تک کردی گئی ہے۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں، جنہوں نے اس سے قبل سال2001ء4 میں جنوبی افغانستان میں امریکی فوجیوں کی کمانڈ کی تھی۔