اسلام آباد:
سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو عدالت پیش کرنے کے بجائے وکلا کی جیل میں ہی ملاقات پر کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی لیگل ٹیم کے تین وکلا کی ملاقات آج تین بجے جیل میں ہی کروائی جائے گئی۔
عمران خان کو جیل سے عدالت لانے کا حکم ہی وکلا ملاقات کے لیے تھا، حل یہ نکالا گیا کہ بانی پی ٹی آئی سے وکلا کی ملاقات جیل میں ہی کروا دی جائے۔ ملاقات کرانے سے متعلق فریقین کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے 3 بجے جیل ملاقات کی تصدیق کر دی ہے۔ فیصل چوہدری نے کہا کہ تین بجے سلمان اکرم راجہ، شعیب شاہین اور مجھے جیل ملاقات کے لیے بلایا گیا ہے۔
قبل ازیں، بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات نا کرانے پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو آج تین بجے عدالت پیش کرنے اور وکلا کے ساتھ آن لائن میٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس آرڈر پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ توہین عدالت کیس میں عدالت ایسا آرڈر پاس نہیں کر سکتی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری کو ریکارڈ کے ہمراہ طلب کر لیا جبکہ اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر دیا۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ایڈووکیٹ فیصل چوہدری کی درخواست پر سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
دوران سماعت، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں حکومت ایک نوٹیفکیشن سے انصاف کی فراہمی کا عمل روک سکتی؟ اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ عدالت کی سماعتیں نہیں ہو رہی تھیں اس لیے ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کہہ رہا ہے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی، میں یہ نہیں کہہ رہا نوٹیفکیشن درست ہے یا نہیں اس کے لیے تو ان کو الگ سے پٹیشن جاری کرنی پڑے گی لیکن عدالتی حکم کے باوجود ملاقات سے انکار عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لاء اینڈ آرڈر صورتحال کی بنیاد پر جیل ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ وکلاء کی ملاقاتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی؟ جس نے یہ نوٹیفکیشن جاری کیا اس نے بھی توہینِ عدالت کی ہے، حکومتِ پنجاب نے اگر وکلاء کی ملاقات روکی تو توہینِ عدالت کی ہے، اس پر وزارتِ داخلہ رپورٹ جمع کرائے کہ کیا سیکیورٹی وجوہات تھیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ 3 اکتوبر سے آج تک وکلا کی جیل ملاقات نہیں کرائی گئی۔
عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ شیر شیر آرہا ہے اتنے لیٹرز جاری کرتے ہیں، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اگر یہ جینوئن نا ہوں، جنہوں نے یہ لیٹر لکھے ہیں ان سے اِن کیمرہ پوچھوں گا، قرآن پر ہاتھ رکھوا کر پوچھوں گا وہ بیان حلفی دیں گے یہ واقعی یہ پوزیشن تھی۔
شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم اگر جیل چلے جاتے تو کیا ہم سے کوئی سیکیورٹی تھریٹ ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین بجے بانی پی ٹی آئی کو عدالت پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو لے کر آئیں گے وہ اپنے وکلا کے ساتھ میٹنگ کر لیں گے۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ بانی پی ٹی آئی کو آپ عدالت میں پیش کریں گے تو یہ عدالت عالیہ ہوگی، آپ سیکیورٹی کے انتظامات کریں اور عمران خان کو عدالت میں لائیں، اگر نہیں لا سکے تو کل آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے۔
ہائیکورٹ نے سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کو حکم دیا کہ اگر آپ نہیں لائیں گے تو وجہ بتائیں گے، جس سیکیورٹی کی تھریٹ وجہ سے نہیں لائیں گے اس سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں گے۔