83

پا کستان کی بدنامی نہیں ہونے دیں گے‘ چیف جسٹس

اسلام آباد ۔سپریم کورٹ میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ انشااللہ پاکستان کی بدنامی نہیں ہونے دیں گے کیونکہ پاکستان کی عزت کے سوا باقی تمام چیزیں ثانی ہیں عدالت کو صرف پاکستان کی عزت مقدم ہے ان کا کہنا تھا کہ پتاچلناچاہیے اربوں روپے کہاں سے آرہے ہیں اگر یہ غلط ہے تو اصل چہرہ سامنے آناچاہیے ۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ایگزیکٹ کے خلاف ہائی کورٹ میں دائراپیلوں کاکیابنا، ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرالتواپیل پر سماعت آج ہوگی جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے معاملہ دوباہ ٹربیونل کوبھجوادیاہے ، چیف جسٹس کے استفسار پر ایگزکٹ کے مالک شعیب شیخ کے وکیل نے کہاکہ مقدمات زیرالتواہیں گواہوں کے بیان مکمل ہونے والے ہیں ۔اس دوران سپریم کورٹ نے پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کی فریق بننے کی درخواست خارج کردی ۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے جرم ثابت ہو جائے پھر جرم کے پیسے کا بھی دیکھیں گے ، پی بی اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ جرائم کا پیسہ میڈیا میں لگایا جارہا ہے کمپنی کا کل اثاثہ 70 لاکھ ہے تنخواہیں کروڑوں میں دیتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ پی بی اے کا معاملہ سے کوئی تعلق نہیں بنتا ایف بی ار سے ایگزکٹ کمپنی کا آڈٹ کروالیں گے۔پی بی اے کے وکیل نے موقف اپنایا کہ میڈیا انڈسٹری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

میڈیا کو جب بھی کوئی پوچھے توداؤپر آجاتا ہے۔کل ڈاکٹرشاہد مسعود نے بھی کہا میڈیا سٹیک پر ہے۔ضرورت پڑی تو پیمرا کو فریق بنائیں گے۔اس دوران عدالت نے ممبر ایف بی آر انکم ٹیکس کوطلب کرلیاجسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ پاکستان کانام بدنام نہیں ہونا چاہیے ، چیف جسٹس نے کہاکہ انشااللہ پاکستان کی بدنامی نہیں ہونے دیں گے کیوں نہ بول کاآڈٹ کروا لیں ، یہ اشتہار نہیں لے رہے تو پھر پھر آمدن کہاں سے آرہی ہے ۔

ڈی جی ایف آئی اے نے کہاکہ بول کے پاس پیسہ توہوگا ، چیف جسٹس نے کہاکہ بول کہاں سے چل رہاہے بول کے پاس پیسہ کہاں سے آگیا ،ایف بی آر سے ٹیکس ریٹرن منگوالیتے ہیں کیونکہ پاکستان کی عزت کے سوا باقی تمام چیزیں ثانی ہیں عدالت کو صرف پاکستان کی عزت مقدم ہے ان کا کہنا تھا کہ پتاچلناچاہیے اربوں روپے کہاں سے آرہے ہیں اگر یہ غلط ہے تو اصل چہرہ سامنے آناچاہیے ۔ 

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ملازمین کو تنخواہیں ادا کیں یا نہیں تو شعیب شیخ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملازمین کی تنخواہیں بنتی ہی نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ بول رقم سپریم کورٹ میں جمع کروا دے ہم دیکھ لیں گے کہ کتنی رقم بنتی ہے۔۔بتایا جائے کہ ادائیگیوں کا مجموعی دعوی کتنا ہے۔ہمیں پہلے یہ معلوم ہو کہ ملازمین کی ادائیگیوں کی کل کتنی رقم بنتی ہے ۔ملازمین نے پہلے بول مالکان سے رجوع کیوں نہ کیا؟

ہمیں یہ بتادیں کیاہم ریکوری کرواسکتے ہیں ۔وکیل شعیب شیخ کا کہنا تھا کہ کچھ ملازمین نے ریکوری کے لئے ٹرائل عدالت میں دعوی کر رکھا ہے۔اس دوران سابق ملازمین کا کہنا تھا کہ مالکان کے پاس اس لئے نہیں گئے کیونکہ ان پر اعتماد نہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ اعتماد نہیں تھاتوپھرآپ نے ریکوری کے لیے کس کے پاس جاناتھا ایگزیکٹ کے معاملات اب مختلف عدالتوں میں زیرالتواہیں تابتایا جائے کہ ان حالات میں اب ہمیں کیاکرناچاہیے ۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق شعیب شیخ غیرملکی کمپنیوں میں شیئر ہولڈر ہیں۔ عدالتی طلبی پر ممبر ایف بی آر انکم ٹیکس عدالت میں پیش ہوئے تو شعیب شیخ کے مالک کے وکیل نے موقف اپنایا کہ ہماری دو کمپنیاں ہیں، ایک ایگزیکٹ اور دوسری لبیک، چیف جسٹس نے کہاکہ ایف بی آر دس سال کا ٹیکس ریکارڈ لے کر آئے اور وضاحت کرے بول ٹی وی کیسے چل رہا ہے،۔

بول ٹی وی اشتہار بھی نہیں لے رہا، جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیاکہ کیا سیلف فنانس سے ٹی وی چل رہا ہے، اگر سلف فنانس ہے تو پھر آمدن کے ذرائع بتا دیں، اس دوران اینکر پرسن نذیر لغاری کا کہنا تھاکہ ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگرآپ کے خلاف اپیگنڈہ ہو رہا ہے تو آپ کو خوش ہونا چاہیے، عدالت آپ کے لیے کام کر رہی ہے ہو سکتا ہے آپکو تحقیقات میں کلین چٹ مل جائے، لیکن دیکھنا ہے کہ بول کو فنانس کہا ں سے مل رہا۔

نذیر لغاری نے کہاکہ ہمارے سی او اور چیئرمین کو ضمانت نہیں مل رہی،جس جرم میں پکڑا گیا ہے اسکی سزا دو سال ہے،شعیب شیخ پندرہ ماہ پہلے بھی حراست میں رہ چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالتیں بڑی آزاد ہیں، شعیب شیخ جیل میں ہیں تو رہنے دیں جس نے برا کیا وہ جیل رہے، جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ایگزیکٹ پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات ہیں جبکہ ایف آئی اے نے ان الزامات کی تائید کی۔

ایف بی آر سے ریٹرن کی تفصیلات منگوائی ہیں،وکیل شعیب شیخ نے استدعا کی کہ کسی آزاد ادارے سے تحقیقات کرا لیں،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے ایف بی آر کی تفصیلات آنے دیں پھر دیکھ لیتے ہیں، ممبرایف بی آر نے عدالت کوبتایاکہ لبیک نے 2011سے گوشوارے فائل نہیں کیے، جس پر وکیل نے برجستہ جواب دیا کہ 2011کے بعد بول کے نام سے گوشوارے فائل کیے، جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ایف بی آر کو سارے نام بتا دیں کن ناموں سے ریٹرن فائل ہوئے ہیں ۔ عدالت نے کیس کی مزیدسماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی ۔