283

فاٹاانضمام ٗ عدالتی سٹرکچرکیلئے14ارب روپے درکار

پشاور۔وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوامیں ضم ہوجانے کی صورت میں وہاں عدالتی انفراسٹرکچر کے قیام کے لئے 14ارب روپے درکارہیں فاٹاکی سات قبائلی ایجنسیوں میں ضلعی سطح کے 7اورتحصیل سطح کے بھی 7جوڈیشل کمپلیکس تعمیرکئے جائیں گے جبکہ فاٹاکی سات قبائلی ایجنسیوں میں 7ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ٗ 14 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ٗ7سینئرسول جج ٗ 24 سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ اور اوران کے لئے 823افراد پر مشتمل عدالتی عملہ تعینات کیاجائے گا ۔

دستاویز کے مطابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کی سات ایجنسیوں میں 7 ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ٗ14ایڈیشنل سیشن جج ٗ7سینئرسول جج اور24سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ تعینات کئے جائیں گے جبکہ ان ججوں کے لئے مجموعی طورپر8سو23افراد پرمشتمل عدالتی عملہ تعینات کیاجائے گا جن میں365سیشن کورٹ اور458 افراد پرمشتمل عملہ سینئرسول جج اورسول ججوں کی عدالتوں میں تعینات کیاجائے گا۔

دستاویز کے مطابق قبائلی علاقہ جات کے خیبرپختونخوامیں ضم ہوجانے کے بعد وہاں جوڈیشل انفراسٹرکچرکے قیام کے لئے مجموعی طور پر 14 ارب روپے سے زائد کی رقم درکارہوگی جن میں تحصیلوں کی سطح پر 7جوڈیشل کمپلیکسز کی تعمیرکیلئے 9ارب 52 کروڑ 80 لاکھ روپے درکارہوں گے جبکہ ضلع سطح پر 7 جوڈیشل کمپلیکسز کی تعمیر پر 4 ارب 34 کروڑ 10 لاکھ روپے درکارہوں گے ۔ اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ میں قائم ہیومن رائٹس سیل میں روزانہ کی بنیاد پر شکایات بذریعہ ٹیلی فون ‘ خطوط اور ای میلز وصول کئے جا رہے ہیں اور اب تک 86 فیصد شکایات کو حل کیا گیا ہے۔

جبکہ اس حوالے سے ہیومن رائٹس سیل میں خصوصی یونٹ کام کر رہا ہے اور خود کار طریقہ کار کے تحت تمام شکایات وصول ہونے کے بعد ضروری کارروائی کیلئے چیف جسٹس کے سامنے رکھ کر اس پر ضروری کارروائی بھی عمل میں لائی جا رہی ہے دستاویز کے مطابق آخری چھ ماہ میں 13 ہزار 6 سو 76 نئے کیسز جمع کئے گئے جس میں سے 14 ہزار 482 کیسز نمٹا دےئے گئے اور ہائی کورٹ کے کیس نمٹانے کی شرح 105 فیصد رہی تاہم ابھی تک 36 ہزار 360 کیسز پینڈنگ ہیں پشاور ہائی کورٹ کی دستاویز سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہائی کورٹ کے مختلف امور کیلئے پانچ سالہ پلان بھی شروع کیا گیا ہے جبکہ 1 سال کی طویل مشاورت کے بعد اور مختلف زاویوں سے جائزہ لینے کے بعد لیگل ریفارمز بھی متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے ۔

مختلف امور میں ایم آئی ٹی کے ذریعے انکوائریز بھی شروع کی گئی ہیں جبکہ 3 اضلاع میں جوڈیشل کمپلیکسز اور 6 اضلاع میں ماڈل تحصیل کورٹس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ مختلف جوڈیشل کمپلیکس پر کام جاری ہے مختلف ضلعی عدالتوں میں خواتین کے ساتھ آنے والے بچوں کے لئے ڈے کےئر سنٹر اور فیملی پارک بھی بنائے گئے ہیں تاکہ انہیں اس حوالے سے کوئی مشکل نہ ہو ۔

گرین بنچ نے نتھیہ گلی ‘ اربنائزیشن ماسٹر پلان ‘ کاغان ناران ماسٹر پلان ‘ بی آر ٹی ‘ سولڈ ویسٹ ڈسپوزل ‘ پارکنگ سپیس ان ہاسپٹلز ‘ سیمنٹ فیکٹری ان ملاکنڈ ‘ سٹیل ملز ان ملاکنڈ ‘ دریائے سوات میں انسانی فضلے ‘ بونیر میں ماربلز ویسٹ ‘ ہسپتالوں کی گندگی ‘ درختوں کی غیر قانونی کٹائی اور نہروں کے ارد گرد جنگلوں کی تعمیر سے متعلق بھی احکامات جاری کئے گئے ہیں ۔