کابل۔افغانستان کے دار الخلافہ کابل میں خودکش بمبار کے حملے سے 9 افراد جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے۔کابل میں ہونے والے گزشتہ چند روز میں تیسرا خودکش حملہ افغان حکومت کی طالبان کو 16 سال سے چلنے والی خانہ جنگی کو ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات کی حالیہ پیشکش کے حوالے سے طالبان پر بڑھتے دباؤ کے بعد سامنے آیا اب تک دھماکے کی ذمہ داری کسی تنظیم کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔دھماکہ ہزارہ کمیونٹی کے سابق قائد عبدالعلی مزاری کی 23ویں برسی کی تقریب کے دوران ان کے مزار پر پیش آیا۔اس تقریب میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ان کے ڈپٹی محمد محقق سمیت کئی نامور سیاست دانوں نے شرکت کی تھی۔ ڈپٹی وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمانی کا کہنا تھا کہ خودکش حملے میں 9 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ 22 افراد زخمی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں دو پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا کہ افغان حکام نے ہلاکتوں کی تعداد کم بتائی ہے اور واقعے میں 13 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خودکش بمبار تقریب میں داخل نہیں ہوسکا تھا اور پولیس کی جانب سے شناخت کیے جانے پر مزار سے چند میٹر دور چیک پوسٹ کے قریب ہی خود کو اڑا دیا۔ادھر صوبہ تخار میں طالبان کے ایک حملے کے نتیجے میں16سکیورٹی اہلکار مارے گئے ۔
صوبائی حکام کے مطابق جنگجوؤں نے ضلع خواجہ گر میں واقع متعدد چیک پوائنٹس پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں سکیورٹی اہلکاروں اور طالبان کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں۔ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے کابل میں ایک تقریب کے دوران بتایاکہ 10افغان فوجی اور 6پولیس اہلکار وں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے ۔طالبان نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ گروپ کے جنگجوؤں نے خواجہ گر ضلع میں سیکورٹی چیک پوسٹوں پر حملے کرکے حکومتی فورسز کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے
338