33

سائنسدانوں نے سمندر کی گہرائی میں چھپا عجیب راز دریافت کرلیا

سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ بحر الکاہل کی گہرائی میں مکمل تاریکی میں آلو جیسی ساخت کی ایک عجیب چیز آکسیجن بنا رہی ہے۔

درحقیقت یہ پتھر جیسی چیز آکسیجن کے ساتھ ساتھ اتنی بجلی بھی پیدا کرتی ہے جو ڈبل اے بیٹری جتنی ہوتی ہے۔

اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ جیسے زندہ جاندار جیسے پودے اور کائی ہی فوٹو سینتھیسز کے ذریعے آکسیجن بناتے ہیں، جس کے لیے سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر بحر الکاہل کی 4 کلومیٹر گہرائی میں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی، وہاں پولی میٹالک نوڈلز نامی منرل کی جانب سے پہلی بار تاریکی میں آکسیجن بنانے کا مشاہدہ کیا گیا۔

یہ دریافت ہوائی اور میکسیکو کے درمیان واقع Clarion Clipperton Zone میں یہ دریافت کی گئی۔

اس خطے میں مختلف کمپنیوں کی جانب سے ان نوڈلز کی کاشت کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ان نوڈلز کو اکثر چٹانی بیٹریاں بھی کہا جاتا ہے اور ان میں کاپر اور دیگر ایسی دھاتیں بھی موجود ہوتی ہیں جن کو بیٹریز، اسمارٹ فونز، ونڈ ٹربیون اور سولر پینلز کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سائنسدانوں کی ایک ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ سمندر کی تاریکی میں اس عجیب چیز پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اسکاٹش ایسوسی ایشن فار میرین سائنس سے تعلق رکھنے والے سائنسدان اینڈریو سویٹ مین نے بتایا کہ ہم سمندر کی تہہ میں آکسیجن کے استعمال کی شرح کو جانچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے سمندری تہہ کے نمونے اکٹھے کیے اور یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہاں آکسیجن کی مقدار میں خودبخود اضافہ ہو رہا ہے۔

محققین کے مطابق ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ مکمل تاریکی میں بھی آکسیجن بن رہی ہے۔

یہ اتنا حیران کن تھا کہ سائنسدانوں نے ابتدا میں خیال کیا کہ زیرآب سنسر خراب ہوگئے ہیں مگر انہوں نے تجزیے کے لیے کچھ نوڈلز کے نمونے اپنے جہاز پر جمع کیے اور ایک بار پھر آکسیجن کی مقدار میں اضافے کا مشاہدہ کیا۔

اس کے بعد انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ان نوڈلز میں برقی چارج بھی موجود ہے۔

درحقیقت نوڈلز کی سطح پر بجلی کی مقدار اتنی زیادہ تھی جتنی ڈبل اے بیٹری میں ہوتی ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق یہ برقی چارج سمندری پانی میں ہائیڈروجن اور آکسیجن کو الگ کر دیتا ہے اور اس عمل کو انہوں نے seawater electrolysis کا نام دیا۔

محققین کے مطابق یہ بحری سائنس کی ایک حیران کن دریافت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فوٹو سینتھیسز کے بغیر بھی آکسیجن بن سکتی ہے اور یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ یہ عام خیال ہے کہ 3 ارب سال قبل زمین میں ایک قدم جرثومے سے آکسیجن بننا شروع ہوئی اور زندگی کا عمل شروع ہوا۔

مگر نئی دریافت سے عندیہ ملتا ہے کہ خشکی سے ہٹ کر ہوسکتا ہے کہ سمندر میں زندگی کا آغاز ہوا ہو۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر جیو سائنس میں شائع ہوئے۔