32

مخصوص نشستوں کا کیس: پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، چیف جسٹس

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دیے۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندربشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 ریکارڈ  پر ہیں،  تحریک انصاف نے پارٹی سے  وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے جن پر  چیئرمین گوہرعلی خان نے دستخط کیے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ وابستگی سرٹیفکیٹ اورفارم 66 جاری ہوئے توپی ٹی آئی نےانٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائےتھے، پی ٹی آئی نے فارم66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13جنوری کو جاری کیے جب کہ پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟ جسٹس منیب نے پوچھا  آپ کہہ رہے ہیں کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین منتخب نہیں ہواتھا؟ اس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔

جسٹس محمدعلی مظہر  نے کہا کہ  یعنی امیدوار نے جو ظاہر کیا اسی پر کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا آپ نے کاغذات نامزدگی میں پارٹی اسٹیٹس دیکھا یا خود ہی آزاد ڈیکلیئر کردیا؟ اس پر الیکشن کمیش کے وکیل نے بتایا کہ میں نے خود سے آزاد امیدوار ڈیکلیئر نہیں کیا،کاغذات نامزدگی کو دیکھا، حامدرضا کی درخواست دیکھی جس میں کہا گیا کہ آزاد امیدوار ڈیکلیئر کردیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آرہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹراپارٹی انتخابات کے لیے وقت مانگ رہی تھی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کے لیے سال دےدو، تسلیم شدہ بات ہے پی ٹی آئی سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروا سکی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں الیکشن کمیشن پہلے یہ دیکھ سکتا تھا۔