شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور شامی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ شب سے کی جانے والی بمباری میں مزید 70 افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد 16 روز میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 700سے تجاوز کر گئی۔
عربی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے شامی مبصرین کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے امدادی قافلے مشرقی غوطہ میں موجود رہائشیوں کو امداد کی فراہمی میں ناکام ہوئے ہیں جبکہ شامی حکومت کی جانب سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے گزشتہ شام سے جاری شدید بمباری پر اس دن کو اب تک کا ’خونی دن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بمباری میں مزید 70 افراد ہلاک ہوئے اور شام کی سرکاری فورسز کی جانب سے مسلسل بمباری جاری ہے۔
خیال رہے کہ شام کی سرکاری فورسز کو روس کی حمایت حاصل ہے اور وہ دمشق سے ملحقہ باغیوں کے زیر اثر علاقے مشرقی غوطہ میں مسلسل 16 روز سے بمباری جاری رکھے ہوئے ہیں، اس دوران اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے 30 روزہ جنگ بندی کی قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جبکہ روس نے بھی 5 گھٹنے کے لیے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن ان دونوں پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
دوسری جانب مشرقی غوطہ کے مکینوں کی جانب سے 5 گھنٹوں کی عارضی جنگ بندی پر شک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا کیونکہ اس عمل کا مقصد وہاں کے لوگوں کو انسانی حقوق کا راستہ فراہم کرنا تھا اور یہاں امدادی قافلوں کی رسائی دینی تھی لیکن اس عارضی جنگ بندی کے دوران بھی شامی فورسز کی جانب سے فضائی حملوں میں شہریوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
تاہم اس فضائی مہم کے جاری رہنے کے باوجود گزشتہ روز تقریباً ایک ماہ بعد پہلی مرتبہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی)، شامی عرب ریڈ کریسینٹ اور اقوام متحدہ کی جانب سے 46 ٹرکروں کو سرکاری زیر اثر چوکیوں سے گزار کر متاثرہ علاقے تک پہنچایا گیا لیکن امدادی رضاکاروں کا کہنا تھا کہ اس سامان میں سے زیادہ تر شام کی فورسز نے ضبط کرلیا تھا۔
اس بارے میں شام کی سول ڈیفنس کے ترجمان محمد آدم کا کہنا تھا کہ اس امدادی قافلے میں شام کی فورسز کی بمباری سے زخمی ہونے والے افراد کے لیے انتہائی ضروری طبی سامان اور خوراک موجود تھی اور انہیں متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم 9 ٹرکوں کو سامان اتارنے سے روک دیا گیا۔
واضح رہے کہ ان امدادی قافلوں میں سرجیکل سپلائیز اور ادویات سمیت 5 ہزار 500 آٹے اور دیگر کھانے کے سامان کی بوریاں موجود تھیں جو تقریباً 27 ہزار 500 لوگوں کی خوراک کے لیے کافی تھی۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے حکام نے بھی اس بات کی تصدیقی کی کہ شامی حکومت کی جانب سے 70 فیصد طبی سہولیات کی فراہمی کے سامان کو روک دیا گیا، جس میں ٹراما کٹس، سرجیکل کٹس، انسولین اور دیگراہم سامان شامل ہے۔
یاد رہے کہ شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں 4 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں اور یہاں 2013 کے وسط سے حکومت مخالف گروپ کا کنٹرول ہے، جس کے بعد سے حکومت کی جانب سے اس علاقے کا محاصرہ جاری ہے۔
شام کی سول ڈیفنس اور انسانی حقوق کے شامی مبصرین کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات ہونے والے حملے میں 30 افراد علاقے میں صرف دم گھٹنے سے متاثر ہوئے۔
محمد آدم کے مطابق شام کی سرکاری فورسز کی جانب سے مبینہ طور پر رہائشی علاقوں پر’ کیمیائی حملے‘ کیے جارہے ہیں۔
شام میں جاری اس بمباری اور انسانی حقوق کی پامالی پر انسانی حقوق کے شامی مبصرین کا کہنا تھا کہ شام میں اموات میں کئی گناہ اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ اب بھی ملبے تلے موجود ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ کہ شام میں مارچ 2011 سے خانہ جنگی جاری ہے اور اس دوران ایک اندازے کے مطابق 4 لاکھ 65 ہزار سے زائد شامی ہلاک اور لاکھوں لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں جبکہ اس دوران ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد لوگ اپنے گھروں سے بھی محروم ہوئے ہیں۔
شام کے علاقے مشرقی غوطہ کی بات کی جائے تو یہاں بھی گزشتہ کئی عرصے سے حالات کشیدہ ہیں اور حکومتی فورسز اور باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
شامی فورسز کو روس کی حمایت حاصل ہے اور وہ یہاں فضائی اور زمینی طور پر جدید ہتھیاروں سے حملے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے گزشتہ ماہ 19 فروری کو شامی فورسز نے روسی فضائیہ کی مدد سے مشرقی غوطہ میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا تھا، جس میں اب تک ایک محتاط اندازے کے مطابق 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 180 سے زائد بچے اور 100 سے زائد خواتین بھی شامل ہیں۔