218

پاکستان دہشتگری کے خاتمے کیلئے نئی حکمت عملی اپنائے‘ امریکہ 

واشنگٹن۔ امریکا کی جانب سے گزشتہ ہفتے پاکستان کے ساتھ تعاون کو بہتر بنانے کے اشارے کے بعد پینٹاگون کی جانب سے اسلام آباد کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک اہم موڑ تک پہنچ چکی ہے اور اس موقع کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کو شکست دینی چاہیے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق واشنگٹن میں پیٹاگون چیف کی ترجمان ڈانا ڈبلیو وائٹ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان کے حوالے سے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان مزید کام (ڈو مور) کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم موڑ ہے اور پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ مزید اقدام کرے کیونکہ وہ دہشت گردی سے متاثر ہے لہذا ہم ان کے ساتھ کام جاری رکھنا چاہتے ہیں اور دیکھنا چاہتے ہیں کہ کہاں مواقع دستیاب ہیں۔بریفنگ کے دوران افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی دعوت پر پاکستان کے خیر مقدم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو دہشت گردی اور تشدد کو ترک کرنا ہوگا اور افغانستان کے آئین کی حمایت کرنی ہوگی۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سینئر ساتھی لیسا کرٹس نے اچانک اسلام آباد کا دورہ کیا تھا اور پاکستان کی اہم قیادت سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا بھی واشنگٹن کا دورہ شیڈول ہے، جس کا آغاز منگل سے ہوگا۔اس حوالے سے حکام نے تصدیق کی کہ اپنے دورے کے دوران تہمینہ جنجوعہ وائٹ ہاس اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام سے ملاقات کریں گی جبکہ امن کے لیے بنائے گئے امریکی ادارے کے ماہرین سے بھی خطاب کریں گی۔سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ وائٹ ہاس میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی قومی سلامتی کونسل کی سینئر ڈائریکٹر لیسا کرٹس سے ملاقات کریں گی۔

یاد رہے کہ لیسا کرٹس نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد کے دوران پاکستان کے نئے تعلقات کو آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔اس بارے میں امریکا کے قائم مقام سیکریٹری آف اسٹیٹ الائس ویلس نے ایک انٹرویو میں پاکستان کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ واشنگٹن پرانے تعلقات کی بحالی نہیں چاہتا، جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سرد جنگ میں پاکستان کا ایک اہم اتحادی بنا دیا تھا۔

ان سب کے باوجود پینٹاگون حکام کی جانب سے واضح کیا گیا کہ واشنگٹن حالیہ امریکی پالیسی میں بتائے گئے نئے حقائق کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے۔یہ پالیسی ایشیا میں چین اور روس کے بھڑتے اثر و رسوخ کو امریکی مفادات کے لیے بڑے خطرے کے طور پر دیکھے جانے کے باوجود دہشتگردی کے خطرے کو کم کرتی ہے۔نئی پالیسی میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ چین اور روس کے خطرے سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن کے خیال میں بھارت اسٹریٹجک ساتھی ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب تجربہ کار امریکی فوجیوں کا ایک دستہ افغانستان پہنچ گیا ہے جو پریشان افغان ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ انہیں نئی طرح کی تربیت فراہم کرے گا۔پینٹاگون حکام کو اس بات کی امید ہے کہ ہزاروں سخت جان ماہر فوجیوں کی ملک بھر میں تعیناتی سے افغانستان میں جاری جنگ کا پانسہ پلٹنے میں مدد ملے گی لیکن افغانستان پر نظر رکھنے والوں کو اس بات پر شبہ ہے کہ یہ لوگ 16 سال سے جاری تنازع میں کیسے تبدیلی لاسکیں گے۔اس بارے میں کابل میں نیٹو کے ریسولوٹ سپورٹ مشن کے ترجمان ٹام گریس بیک کا کہنا تھا کہ یہ فوجی یہاں اس لیے آرہے ہیں کیونکہ وہ مشن کے حوالے سے پرجوش ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا اور نیٹو کی جانب سے افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے مختلف تربیتی ماڈلز کا استعمال کیا گیا لیکن ان تمام برسوں کے بعد بھی کئی یونٹس کرپشن اور عدم استحکام کا شکار ہوگئے اور اموات میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ امریکی حکام نے افغان سیکیورٹی یونٹس میں کئے ایسے کیسز بھی پکڑے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی استحصال سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔

خیال رہے کہ پینٹاگون کئی دہائیوں سے مختلف تنازعات میں اپنی ساتھی فورسز کو تربیت دیتا رہا ہے اور حالیہ برسوں میں یہ عمل مقامی فورسز تک بھی بڑھایا گیا، جس کے نتیجے میں عراق اور شام میں عسکریت پسند گروپ داعش کے خلاف کامیابی حاصل ہوئی۔