181

نقیب اللہ قتل کیس: خفیہ اداروں کو رپورٹ پیش کرنے کیلئے ایک ہفتے کی مہلت

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ماورائے عدالت از خود نوٹس کی سماعت کے دوران جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کیس میں مفرور ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کو تلاش کرنے سے متعلق خفیہ ایجنسیوں کو ایک ہفتے میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، جوائنٹ سیکریٹری وزارت دفاع، نقیب اللہ محسود کے وکیل اور دیگر حکام پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیور (آئی بی) کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی، تاہم انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی جانب سے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ راؤ انوار کی گرفتاری میں کوئی پیش رفت یا کامیابی ہوئی یا نہیں؟ جس پر اے ڈی خواجہ نے جواب دیا کہ نقیب اللہ قتل میں ملوث ڈی ایس پی گرفتار ہوگیا ہے لیکن راؤ انوار تاحال مفرور ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو تمام سیکیورٹی اداروں کی مدد فراہم کی تھی، اس کے باوجود ملزم کیوں گرفتار نہیں ہوا؟ آپ نے تمام سیکیورٹی اداروں سے کیا معاونت لی؟ جس پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ تمام اداروں سے راؤ انوار کی تلاش کے لیے مدد مانگی تھی، ساتھ ہی راؤ انوار کی لوکیشن، واٹس ایپ کال اور میسیجز کے حوالے سے بھی معلومات مانگی تھی لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوئی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار سے متعلق انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ عدالت میں جمع ہوچکی ہے جس کے مطابق آئی بی کے ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ پولیس کی تفتیشی ٹیم سے رابطے میں ہیں اور آئی بی نے مفرور ملزم کی فون کالز کا تکنیکی جائزہ لیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی بی کی رپورٹ میں تو کچھ بھی اس کا ذکر نہیں اور آئی ایس آئی کی رپورٹ کہاں ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ اب تک نہیں آئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کی رپورٹ کیوں نہیں آئی؟ وضاحت کریں۔

اس دوران عدالت میں کچھ دیر کا وقفہ ہوا، بعد ازاں مختصر وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے سندھ پولیس سے تعاون کیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالتی حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی؟

اس موقع پر عدالت میں موجود جوائنٹ سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی نے رپورٹ کے لیے وقت مانگا ہے، اگر ایک ہفتہ مل جائے تو ان اداروں کی رپورٹ آجائے گی، جس پر عدالت نے دونوں اداروں کو ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایف سی سے بھی راؤ انوار کی تلاشی سے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایف سی کی رپورٹ نہ آئی تو ذمہ دار ادارے کا متعلقہ افسر ہوگا، ہمیں بھی نقیب اللہ محسود کے قتل کا دکھ اور تکلیف ہے، اس معاملے پر سیاست نہیں ہوگی۔

عدالت میں سماعت کے دوران نقیب اللہ کا کیس لڑنے والے این جی او کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا لگتا ہے کہ راؤ انوار کا کوئی ساتھی ان کی مدد کر رہا ہے، لہٰذا میری استدعا ہے کہ راؤ انوار کی ایئر پورٹ سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جائیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں راو انوار کی حاضری یقینی بنائی جائے، فوٹیج لے کر شناخت کریں، بندے ہم بلالیں گے۔