152

نواز شریف کی صدارت سے نااہلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

اسلام آباد۔ سپریم کورٹ نے پارٹی سربراہ کے حوالے سے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا‘ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارٹی صدر کے لئے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اترنا لازم ہے‘ نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا‘ جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا تب پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 نافذ العمل تھا 28 جولائی کے فیصلے سے نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے پارٹی سربراہ کے حوالے سے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ 51 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آئینی آرٹیکلز کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے شق 203 کی آئین سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 203 کو کالعدم قرار دینے سے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ نواز شریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا۔ جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تب پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 نافذ العمل تھا۔ 28 جولائی کے فیصلے سے نواز شریف پارٹی صدارت سے بھی نااہل ہوگئے تھے۔ فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی نواز شریف کا نام بطور پارٹی صدر ہٹا دیا تھا۔

نواز شریف کی پارٹی صدارت سے نااہلی کی مدت بھی متعین نہیں تھی نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا۔ پارٹی صدر کے لئے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اترنا لازم ہے۔ مسلم لیگ (ن) قومی اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے سب سے بڑی جماعت ہے (ن) لیگ نے قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر حکومت قائم کی نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے صدر تھے 3 اپریل 2016 کو آئی سی آئی جے کی طرف سے پاناما کیس سامنے آیا پاناما سے متعلق دنیا بھر میں خبریں شائع ہوئیں دنیا کے مختلف ممالک کی شخصیات کی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں آف شور کمپنیوں میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے نام بھی سامنے آئے۔ دنیا بھر میں پاناما لیکس کی وجہ سے کئی عالمی رہنماؤں نے استعفے دیئے۔ نواز شریف نے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ کے اندر مختلف وضاحتیں پیش کیں متضاد بیانات کی وجہ سے نواز شریف لوگوں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔

کچھ لوگ درخواست لیکر سپریم کورٹ آئے پانچ رکنی لارجر بینچ نے 20 اپریل 2017 کو ایک فیصلہ دیا جس میں دو ججوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جبکہ تین ججز نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی نے 60 روز کے اندر اپنی رپورٹ پیش کی رپورٹ کی بنیاد پر نواز شریف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا اس عرصے کے دوران نواز شریف پارٹی صدر رہے۔ نااہلی کے بعد نواز شریف پارٹی سربراہ نہیں رہ سکتے تھے۔ عدالت پہلے قرار دے چکی ہے کہ ماتحت قانون کے ذریعے آئین کو بائی پاس نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کو دانستہ فائدہ پہنچانے کے لئے آئینی شقوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا۔ عدالتیں قانون کے مطابق کام کررہی ہیں ایک شخص کیلئے کی گئی قانون سازی عدالت کو آنکھیں دکھانے کے مترادف ہے اس سے مقننہ کو ایسے لوگ کنٹرول کریں گے جو آئین کے تحت پارلیمنٹ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ جو شخص بادشاہ بننے کے لئے نااہل ہوا اسے کنگ میکر بننے کے لئے فری ہینڈ نہیں دیا جاسکتا۔ نااہل کا انتخابی عمل سے گزرے بغیر بطور پپٹ ماسٹر سیاسی طاقت استعمال کرنا آئین سے کھلواڑ ہے۔