دی ہیگ: اقوام متحدہ کی عالمی عدالتِ انصاف میں فلسطین پر 1967 سے اسرائیلی قبضے سے متعلق سماعت کا آغاز ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ہدایت پر عالمی عدالتِ انصاف نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیل کے قبضے سے متعلق قانونی نتائج جاننے کے لیے سماعت کا آغاز کردیا۔
ایک ہفتے تک جاری رہنی والی اس سماعت کے دوران 52 ممالک اور تین تنظیمیں عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے فلسطین پر قبضے سے متعلق شواہد، دلائل، مؤقف پیش کریں گے اور جرح کی جائے گی۔
یاد رہے کہ اس بار اقوام متحدہ کی ہدایت پر عالمی عدالتِ انصاف اسرائیل کے فلسطین کے قبضے کے خلاف سماعت کر رہی ہے جب کہ گزشتہ ماہ جنوبی افریقا کی درخواست پر غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم پر سماعت ہوچکی ہے۔
آج ہونے والی سماعت کا آغاز فلسطین اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض المالکی کی تقریر سے ہوا۔ انھوں نے اس تاریخی کارروائی میں مظلوم اور محکوم فلسطینیوں کی نمائندگی کرنے کو اپنے لیے اعزاز اور بھاری ذمہ داری قرار دیا۔
ریاض المالکی نے کہا کہ میں آپ کے سامنے غزہ کے محصور اور اندھا دھند بمباری میں ہلاک، معذور، بھوکے اور بے گھر 23 لاکھ فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے کھڑا ہوں۔
فلسطین اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے مزید کہا ہے کہ اسی طرح مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں 35 لاکھ سے زائد فلسطینی بھی استعماری اور نسل پرست اسرائیل کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے اسرائیل میں 70 لاکھ فلسطینیوں کے ساتھ ان کی آبائی سرزمین میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کر رہا ہے اور انھیں ان کے گھروں کو واپس جانے سے روک رہا ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے عدالت کے سامنے 5 مختلف نقشے رکھے اور فلسطین کی آزاد و خود مختار ریاست کے قیام، اسرائیل کے ناجائز قبضے اور جارحیت کے خلاف ٹھوس شواہد بھی پیش کیے۔
جس کے بعد ماہرین مختلف ماہرین قانون اور آرکیولوجسٹ بھی اپنے دلائل کورٹ کے سامنے رکھا جس کے بعد کل سماعت دوبارہ ہوگی۔
خیال رہے کہ دسمبر 2022 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے “مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی پالیسیوں اور طرزِ عمل سے پیدا ہونے والے قانونی نتائج” پر ایک غیر پابند “مشاورتی رائے” طلب کی تھی۔
اقوام متحدہ نے ہدایت کی تھی کہ اولاً عدالت کو اسرائیل کی فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کی مسلسل خلاف ورزی کے قانونی نتائج کا جائزہ لینا چاہیے جس کا تعلق 1967 سے مقبوضہ فلسطینی سرزمین پر طویل قبضے سے ہے۔
دوم اقوام متحدہ نے عالمی عدالتِ انصاف سے اسرائیل کی فلسطینیوں سے متعلق امتیازی قانون سازی اور اقدامات کا قانونی جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی تھی۔
اقوام متحدہ کی ہدایت پر عالمی عدالتِ انصاف اس معاملے پر فوری طور پر اور زیادہ سے زیادہ رواں برس کے آخر تک فیصلہ دیدے گی۔