85

دوپہر میں کچھ دیر سونے کا فائدہ

بیشتر افراد دوپہر کو کچھ دیر کے لیے سونا یا قیلولہ کرنا پسند کرتے ہیں۔

یہ عادت صحت کے لیے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے، خاص طور پر جسمانی وزن میں کمی لانے کے لیے قیلولہ بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

لندن کالج یونیورسٹی کی کچھ عرصے پہلے کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ روزانہ 30 منٹ تک قیلولہ کرنے سے کمر کی چوڑائی میں لگ بھگ ایک انچ کمی لانا ممکن ہے۔

تحقیق کے مطابق بیٹھ کر وقت گزارنے کی بجائے دوپہر کو سونے سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔

درحقیقت ہر طرح کی جسمانی سرگرمی جیسے سونے کے لیے اٹھ کر کسی اور جگہ جانے سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جسمانی وزن میں کمی لانے میں مدد ملتی ہے۔

اس تحقیق 15 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کی جسمانی سرگرمیوں کو ٹریکرز سے جانچا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ اوسطاً ہر فرد روزانہ 7.7 گھنٹے سو کر گزارتا ہے، 10.4 گھنٹے بیٹھ کر، 3 گھنٹے کھڑے رہ کر جبکہ باقی 3 گھنٹے دیگر طریقوں سے متحرک رہ کر گزارتا ہے۔

اس کے بعد کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے تجزیہ کیا گیا کہ اگر بیٹھ کر گزارے جانے والے وقت میں سے 30 منٹ کو کسی اور سرگرمی میں تبدیل کر دیا جائے تو پھر کیا ہوتا ہے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ بیٹھ کر گزارے جانے والے وقت میں سے 30 منٹ دوپہر کو سونے کے لیے مختص کرنے سے جسمانی وزن میں 0.43 فیصد کمی آتی ہے جبکہ کمر کی چوڑائی 0.7 انچ تک کم ہو جاتی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ نیند سے صحت کے لیے دیگر نقصان دہ عادات جیسے بے وقت کچھ کھانے سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے، جس سے بھی جسمانی وزن میں کمی لانا ممکن ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق بیٹھ کر گزارے جانے والے وقت میں کسی بھی طرح کی کمی صحت کے لیے مفید ہوتی ہے۔

محققین نے بتایا کہ اگر آپ معتدل یا سخت جسمانی سرگرمیوں کے لیے وقت نکالتے ہیں تو زیادہ فائدہ ہوتا ہے، اب چاہے وہ سیڑھیاں چڑھنا ہو، تیز رفتاری سے چلنا یا کچھ اور۔

اسی طرح ہلکی پھلکی سرگرمیوں جیسے آرام سے چہل قدمی، کھڑے ہونے یا سونے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بیٹھنے سے جسم پر مرتب منفی اثرات سے بچنے کے لیے ہر قسم کی سرگرمیاں بہترین ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے جسمانی وزن میں کمی آتی ہے، کولیسٹرول اور خون میں چکنائی کی مقدار گھٹ جاتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہوئے۔