31

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ

پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

 پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواستوں پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر عبوری چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی اور پارٹی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور نیاز اللہ نیازی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے جب کہ اکبر ایس بابر سمیت انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف متعدد درخواست گزار بھی پیش ہوئے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے الیکشن کمیشن کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن کے اندر انتخابات کا حکم دیا تھا، جب بلا مقابلہ انتخاب ہو تو ووٹنگ کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کوئی غیر قانونی اقدام نہیں ہے عام انتخابات میں بھی امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوتے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہر کوئی پارٹی ممبر نہیں۔ ووٹر یا سپورٹر اور ممبر ہونے میں فرق ہے۔ ممبر سے سے آپ کا پہلا سوال ممبر شپ کارڈ سے متعلق ہونا چاہیے۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن کے رکن نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ کوئی ممبر نہیں تو وہ شکایت نہیں کر سکتا۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ پارٹی کسی کو نکال بھی سکتی ہے اور اگر کسی کو پارٹی میں رہنے کا شوق ہے تو وہ سول کورٹ جا سکتا ہے۔

سیکشن 208 کے مطابق سیاسی جماعت کی باڈی اپنے پارٹی آئین کے مطابق منتخب ہو گی اور تمام سیاسی جماعتوں کو الیکٹرول کالج پورا کرنا ہوگا۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن انتخابی نشان کیلیے شرائط میں شامل ہے جو ہم نے پوری کر دی  جب کہ 4 مختلف ڈاکومنٹس دینے پر انتخابی نشان ملتا ہے، انتخابی نشان نہ دینے کے سنگین نتائج ہیں اور سیاسی جماعت کے رجسٹریشن پر سوال ہے۔

کے پی سے ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ جب ہم مطمئن ہوں گے تب ہی سرٹیفکیٹ جاری کریں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کہا گیا کہ ہم ڈر رہے تھے اور چھپا کر انتخابات کروا رہے تھے، ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کی تاریخ 28 نومبر کو میڈیا میں دی گئی، میں نے خود پریس کانفرنس کی اور بتایا انتخابات اسی ہفتے کو کرانے جا رہے ہیں، انتخابی شیڈول ہم نے ہر دفتر کے باہر چسپاں کیا۔

ممبر کے پی الیکشن کمیشن نے کہا کہ پورے پاکستان کے انتخابات صرف پشاور میں ہوئے جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ہر جماعت کا یہی ہوتا ہے یہ عام انتخابات نہیں، انٹرا پارٹی ہیں جو ایک جگہ ہوتے ہیں۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن کے سندھ سے ممبر نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ جو ممبر نہیں وہ لڑ نہیں سکتے اور دوسرا آپ نے کہا بلامقابلہ ہوئے، تیسرا آپ نے کہا آئین میں کرانے کا طریقہ کار نہیں ہے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی وکیل کہا کہ ہم نے الیکشن  کمیشن کو سیکیورٹی کے لیے خط بھی لکھا، آئی جی اور چیف سیکریٹری سے بھی بات ہوئی جب کہ انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق میڈیا رپورٹس الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں۔

اس موقع پر ممبر کمیشن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس کاغذات نامزدگی کا کوئی نمونہ یا اس سے متعلق نوٹس کی کوئی کاپی ہے اگر ہے تو ہماری تسلی کے دکھائیں۔

عبوری چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی ہے لیکن یہاں نہیں لائے۔

پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب اسکروٹنی مکمل ہوئی تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ بلا مقابلہ ہے۔ بلا مقابلہ کے باوجود ہم نے سب کو جمع ہونے کی اجازت دی، الیکٹوریٹ باڈی میں سے کسی نے بھی الیکشن سے متعلق شکایت نہیں کی اور غیر ممبر کے علاوہ کوئی بھی آپ کے پاس نہیں آیا۔ ہم واحد پارٹی ہیں جن کا سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ لوگ پینل لے بھی آتے تو پھر بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے کیونکہ یہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تھے اور دوسری بات یہ کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی کے لیے درخواست ہی نہیں دی۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ درخواست گزاروں نے یہاں پر ویڈیو بھی چلائی تھی جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ اس کا تو فرانزک ہوگا جس کے بعد ہی پتہ چلے گا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ انتخابی نشان اور الیکشن لڑنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ ان درخواست گزاروں کا کوئی حق نہیں بنتا۔ ہماری استدعا ہے کہ یہ درخواستیں مسترد کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست میں کسی ممبر کا نہیں بلکہ فرد کا ذکر ہے، آپ نے آئین میں بتانا ہے پروسیجر کیا ہونا چاہیے، اکبر ایس کی ممبر شپ سے متعلق فیصلے لگا دیے ہیں، وہ پی ٹی آئی میں سابق عہدے دار رہے ہیں۔ انہوں نے کب شوکاز دیا اور وہ کہاں ہے؟ انہوں نے کسی جگہ ذکر نہیں کیا کہ کہاں پر انتخابات ہو رہے ہیں۔

اس موقع پر عبوری چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ میڈیا کو بھی پتہ تھا اور ہر جگہ بتایا کہ انتخابات پشاور میں ہوں گے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ لوگ اس پر اتفاق کر لیں کہ فوٹیج کا فارنزک ہونا چاہیے جس پر بیرسٹر احمد حسن نے کہا کہ مجھے تو فارنزک سے کوئی مسئلہ نہیں۔ سپریم کورٹ کہہ چکا الیکشن کمیشن پارٹیز کیلئےریگولیٹری باڈی ہے،۔

بیرسٹر احمد حسن کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹی ایک بادشاہت یا کلب نہیں ہے اور ہمارا موقف ہے کہ یہ انتخابات کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا حکم دیا جائے اور اس انٹرا پارٹی الیکشن کی نگرانی خود الیکشن کمیشن کرے۔

اس موقع پر ممبر کمیشن نے درخواست گزار اکبر ایس بابر کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کی استدعا کیا ہے؟ جس پر اکبر ایس وکیل نے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرانے کی استدعا کر دی۔

اسی حوالے سے ایک اور درخواست گزار وکیل عزیز الدین کاکا خیل نے پی ٹی آئی کے الیکشن کو سلیکشن قرار دیتے ہوئے اس کالعدم قرار دینے اور دوبارہ انتخابات کرانے کی استدعا کی۔

دوران سماعت الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی الیکشن کا سرٹیفکیٹ جمع کرایا۔ ہم نے پی ٹی آئی کو 7 دسمبر کو سوال بھیجے جن میں سے انہوں نے 8 کے جواب دیے جس کے بعد ہم نے انہیں مزید 32 سوالات دیے ہیں۔

جس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ اتنی سخت اسکروٹنی کر رہے ہیں۔ کیا ایسے سوالات الیکشن کمیشن نے دیگر جماعتوں سے بھی کیے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔