33

کسی کو بھی جمہوریت ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی، سپریم کورٹ : 8 فروری 2024کو عام انتخابات یقینی بنانے کا حکم

سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی اپیل پر براہ راست سماعت ہوئی جس کے بعد حکمنانہ لکھوانا شروع کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حکم نامہ لکھوا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ 8فروری 2024کو الیکشن کا انعقاد یقینی بنایاجائے،کسی کو بھی جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔

الیکشن کمیشن نے الیکشن پروگرام کا آج اعلان کرنا تھا،الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو وقت پر الیکشن نہیں ہو سکتے۔

اگر لاہور ہائیکورٹ کافیصلہ برقرار رہا تو 8 فروری کو الیکشنز نہیں ہوسکتے۔

چیف جسٹس نے خاتون وکیل کو بولنے سے روک دیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیچھے جا کر بیٹھ جائیں۔

قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی ۔

جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا جلدی تھی اس وقت سب کو آنا پڑا؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ تحریک انصاف کے عمیر نیازی نے آر او کے فیصلے کو چیلنج کیا، عمیر نیازی نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51 کو چیلنج کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کمیٹی نے متفقہ طور پر اس بینچ کی منظوری دی۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے انتخابی عمل رک گیاہے۔


چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی کچھ مصروفیات تھیں اس لیے بینچ کا حصہ نہیں بنے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آر او اور ڈی آر اوز بیوروکریسی سے لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کیاگیاہے۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کیا کہ میری فلائٹ مِس ہوئی آپ کیسے مداوا کریں گے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ بتائیں لاہور ہائی کورٹ میں کون گیاہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کی جانب سے درخواست دائر کی گئی۔

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ شفاف الیکشن میں کونسی چیز رکاوٹ ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران جوڈیشل افسران تھے،2018کے الیکشن میں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے گئے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ جب ڈی آر اوز تعینات ہوگئے تو پھر کیا وجہ تھی چیلنج کرنے کی؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا 2018 کے الیکشن میں جوڈیشل آفیسر کون تھے؟وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا2018 کے الیکشن میں ڈی آر اوز جوڈیشل آفیسر تھے۔

درخواست میں کہاگیا کہ بیوروکریسی سے کیوں لیے گئے ہیں۔درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کیلئے ختم کی جائے۔

سجیل سواتی نے کہا کہ درخواست میں استدعا تھی الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں؟

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی پہلی چوائس جوڈیشل افسران تھے۔ہائیکورٹس نے جوڈیشل افسران دینے سے انکار کیا۔

الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کی تعیناتی کیلئے خط لکھا تھا،عدلیہ نے زیرالتواء مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کے خط کے بعد درخواست گزار کیا انتخابات ملتوی کرانا چاہتے تھے؟

وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جواب نہیں دیا، پشاور ہائیکورٹ نے کہا جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے رجوع کریں۔الیکشن کمیشن کی اولین ترجیح عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینا ہی تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ عمیر نیازی آخر چاہتے کیا تھے؟ ہائیکورٹ اپنی ہی عدالت کے خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟

پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا،ڈی آر اوز تو سارے ڈپٹی کمشنرز ہیں۔ہم دیکھنا چاہ رہے ہیں کیا آپ نے کوئی پک اینڈ چوز کیا ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے کوئی پک اینڈ چوز نہیں کیا، وہ پہلے سے تعینات تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسارکیا عمیر نیازی کون ہے؟ لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست کا مقصد بظاہر الیکشن نہ کرانے کےلئے تھا۔کیا عمیر نیازی نے درخواست سے پہلے آپ سے رابطہ کیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز ہیں؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملک بھر میں 148ڈی آر اوز ہیں،درخواست گزار کا کہناہےکہ بیوروکریسی کے ڈی آر اوز پر اعتبار نہیں۔لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کےبعد ڈی آر اوز کی ٹریننگ معطل کردی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ بتائیں آپ نے ٹریننگ کیوں روکی؟نوٹیفکیشن معطل ہوا، ٹریننگ تو نہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹریننگ صرف ایک دن ہوئی ہے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کوئی تحریک انصاف کا شخص یہاں موجود ہے؟

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ جب واضح طور پر کہہ دیا الیکشن میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی تو پھر یہ کون ہیں؟ہم بہت کلیئر ہیں، ہم نے آپ سے کہا تھا ہم آپ کا کام کرائیں گے۔میں حیران ہوں عدلیہ سے ایسے آرڈر پاس ہو رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے۔اٹارنی جنرل آف پاکستان عمیر نیازی لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست سے متعلق لاعلم نکلے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ جب کل آرڈر پاس ہوا تو مجھے پھر پتہ چلا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ڈی آر اوز کی ٹریننگ مکمل طور پر روک دی گئی ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹریننگ کا عمل فی الحال رک گیاہے،ٹریننگ 7روز میں مکمل ہونا تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کل بلوچستان میں پٹیشن چلی جائے، وہاں پنجاب کے لوگ پٹیشن دیتے ہیں،سندھ والے خیبرپختونخوا میں جا کر پٹیشن دیتے ہیں، یہ بہت حیران کن ہو گا۔

عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے،الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟

وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ آج الیکشن شیڈول جاری ہونا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاونت کیلئے نوٹس تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمیر نیازی کا تحریک انصاف کے ساتھ تعلق ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس شخص کو ریلیف کیوں دیں جو جمہوریت کو ڈی ریل کررہا ہے۔

کیا یہ آرڈر دینے والے جج مس کنڈکٹ کے مرتکب نہیں ہوئے ،ایسے نہیں چلے گا ہم سب آئین و قانون کے پابند ہیں۔عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کی توہین ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ درخواست گزار کا مسئلہ یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنرز نے ہمارے خلاف ایم پی اوز کے آرڈر کئے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ کیا آر اوز اور ڈی ار اوز کے خلاف کسی کو شکایت ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی کو کوئی مسئلہ تھا تو سپریم کورٹ آتے۔ہائیکورٹ نے پورے ملک کے ڈی آر اوز کیسے معطل کر دیے؟

ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کہتے ہیں جوڈیشل افسران نہیں دے سکتے،کیا جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کیخلاف رٹ جاری کی ہے؟

کیا توہین عدالت کے مرتکب شخص کو ریلیف دے سکتے ہیں؟کیوں نہ عمیر نیازی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں؟کیا عمیر نیازی وکیل بھی ہے یا نہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمیر نیازی ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے سوال کیا کہ آپ آج الیکشن شیڈول فراہم کریں گے؟

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے انتخابی شیڈول مانگ لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا شیڈول کہاں ہے، دکھائیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن شیڈول کب جاری کرے گا؟

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست دی گئی ہے؟

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کیا ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کیخلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کیا کہ شیڈول کا ٹریننگ سے کیا تعلق ہے؟الیکشن کمیشن آج شیڈول جاری کرے گا یا نہیں،الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ تاریخ بتائیں کس دن شیڈول جاری کریں گے؟آپ کو ڈی آر اوز اور آراوز کی ضرورت تو آگے جا کر ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ٹریننگ کو جاری رہنے دیتے، فرق نہ پڑتا،آپ نے کیوں روکا، کیا آپ بھی نہیں چاہتے کہ الیکشن نہ ہوں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن شیڈول کےلیے 54 دن درکار ہیں،اس کا مطلب ہے الیکشن کمیشن بھی قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

عدالت نے ٹریننگ کا نوٹیفکیشن معطل کرنے پر اظہار برہمی کیا۔

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ لاہورہائیکورٹ کے فیصلے میں کہاں لکھاہے کہ ٹریننگ روک دیں۔

سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلے آنے کے بعد ٹریننگ معطل کی گئی۔

قبل ازیں الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی۔

علاوہ ازیں سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ 8فروری کو انتخابات سے متعلق ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔

دریں اثنا پیپلز پارٹی نے  لاہور ہائیکورٹ کے عام انتخابات کے کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے ۔

آصف زرداری نے  فوری طورپر پٹیشن فائل کر کے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ ن نے بھی  لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت عام انتخابات کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

مریم اورنگزیب  کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے ن لیگ نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کا فیصلہ کیا۔

ن لیگ لاہور ہائیکورٹ کے ریٹرننگ افسران سے متعلق فیصلے کیخلاف لارجر بینچ میں فریق بنے گی۔

نواز شریف اور شہباز شریف نے پارٹی کو گرین سگنل دے دیا،مسلم لیگ (ن) کی لیگل ٹیم نے پٹیشن تیار کرنا شروع کر دی۔

دوسری جانب آئی پی پی نے بھی لاہورہائیکورٹ میں زیرسماعت عام انتخابات کیس میں فریق بننےکافیصلہ کیا ہے۔