31

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس سماعت کیلئے مقرر کردیا

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ یکم نومبر کو سماعت کرے گا۔

فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ یکم نومبر (بدھ) کو سماعت کرے گا۔

اس حوالے سے رجسٹرار سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔

عدالت نے گزشتہ سماعت پر تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کیا تھا، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، الیکشن کمیشن، آئی بی سمیت دیگر نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد ٹی ایل پی کے دھرنے پر ازخودنوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں سخت آبزرویشن دی تھیں۔

آئی ایس آئی، وزارت داخلہ سمیت متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ میں 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔

آئی ایس آئی نے سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کے 6 فروری کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نظر ثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ فیصلے کی وجہ سے آرمڈ فورسز کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

آئی ایس آئی نے درخواست میں واضح کیا کہ پاک فوج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس ہے۔ اگر ایسا کوئی الزام ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔ درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ 6 فروری کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن سے ایسا لگتا ہے کہ آرمڈ فورسز نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔ جیو اور ڈان ٹی وی کی نشریات بند کرنے سے متعلق فیصلے میں آبزرویشن بھی بے بنیاد ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کیسے بتا سکتی تھی کہ تحریک لبیک پاکستان کا زریعہ آمدنی کیا ہے۔ یہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں تھا جو عدالت پوچھتی رہی۔ عدالت نے مختلف ممالک کے حساس اداروں کا فیصلے میں ذکر کیا ہے لیکن حالات کا تذکرہ نہیں کیا۔

درخواست میں آئی ایس آئی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ فورسز تنقید اور مخالف پروپیگنڈا پر دشمنوں کو جواب دے سکتی ہے لیکن جب عدالت کی جانب سے ایسی آبزرویشن آتی ہیں تو ملک کے دشمنوں کے خلاف آرمڈ فورسز اپنا دفاع نہیں کرسکتیں۔

فیصلے میں کہی گئی باتیں بے بنیاد اور آرمڈ فورسز کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ آرمی چیف کو ایکشن لینے کی ہدایات بھی واضح نہیں لہذا ان پر عمل کیسے ہو۔ پاک فوج کے ترجمان کا بیان کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ آیندہ انتخابات صاف شفاف ہونگے کو حقائق سے ہٹ کر میڈیا پر پیش کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیصلے میں رینجرز اہلکار کے دھرنا مظاہرین کو پیسے دینے کا ذکر ہے جس کے حالات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔

یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تو مظاہرین نے کہا کہ گھر واپس جانے کے پیسے نہیں۔ حکومت اور مظاہرین کے معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے ان مظاہرین کو گھر واپس جانے کے پیسے دیے گئے۔ جن مظاہرین کے خلاف مقدمات درج نہ ہوئے اور وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ عدالت اس پہلو کا جائزہ نہیں لے سکی۔

آئی ایس آئی نے درخواست میں واضح کیا کہ پاک فوج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس ہے، اگر ایسا کوئی الزام ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے، عدالت نے آئین کی شق 184/3 کا استعمال مناسب نہیں کیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ فیصلے پر نظرثانی کرکے آئی ایس آئی اور آرمڈ فورسز کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کو کالعدم قرار دیا جائے۔

پی ٹی آئی، ایم کیو ایم کی نظرثانی درخواستیں

11 اپریل 2019 کو تحریک انصاف، ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔ ایم کیو ایم نے ایڈو کیٹ عرفان قادر اور پی ٹی آئی نے علی ظفر ایڈوکیٹ کے توسط سے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں۔

ایم کیوایم کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتی فیصلہ آئین کی شقوں 10 اے۔ 4۔5۔25 کی خلاف ورزی ہے۔فیض آباد دھرنا کیس کا پیرا گراف 22 قانون کے خلاف ہے۔ فیصلے کے پیراگراف 23 اور 24 مفروضوں کی بنیاد پر ہے۔ ان پیراگرافس میں 12مئی 2007 اور فیض آباد دھرنے کا موازنہ کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں فیض آباد دھرنے کا موازنہ 2014 کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے ساتھ کیا ہے۔سپریم کورٹ 6 فروری 2019 کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔