189

نقیب قتل کیس: سپریم کورٹ نے راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ماورائے عدالت قتل کیس میں سابق سینئر سپرنٹنڈ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انور کی حفاظتی ضمانت منظور کرلی جبکہ ان کی گرفتاری عمل میں نہ لانے کی ہدایت دیتے ہوئے انہیں 16 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی میں نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ بھی عدالت میں پیش ہوئے اور سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی گرفتاری کے حوالے سے انہوں نے اپنا تفصیلی جواب بھی جمع کروایا۔

انہوں نے بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی رپورٹس بھی جمع عدالت میں جمع کروادی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی بی نے جواب میں کہا ہے کہ وہ اس کیس کو ہائی پروفائل کیس کے طور پر دیکھ رہے ہیں، راؤ انوار کے موبائل کی لوکیشن ٹریس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم آئی بی کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ واٹس ایپ کی لوکیشن ٹریس نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سندھ پولیس کی تمام باتوں کے مطابق نتیجہ صفر ہے، ہر بار وقت دیا جاتا ہے تاہم اب لگتا ہے ہمیں ہی راؤ انوار کو پکڑنا پڑے گا۔

راؤ انوار کی جانب سے سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو ایک خط لکھا گیا تھا جسے چیف جسٹس نے عدالت میں پڑھ کر سنایا اور پولیس افسران سے استفسار کیا کہ کیا اس پر خط پر دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہیں۔

اے ڈی خواجہ کے ساتھ موجود دیگر افسران نے خط دیکھ رک عدالت کو بتایا کہ دستخط سابق ایس ایس پی ملیر کے ہی لگ رہے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ راؤانوار پولیس سے حفاظتی ضمانت مانگیں تو فراہم کی جائے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح انصاف کا حصول مظلوم کا حق ہوتا ہے اسی طرح ظالم کو بھی یہ حق حاصل ہے، راؤ انوار کو بھی انصاف ملنا چاہیے اور شہادت کے بغیر کسی کو مجرم نہیں کہہ سکتے۔

راؤ انوار کی جانب سے لکھے گئے خط میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ وہ بے گناہ ہیں اور اس معاملے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی جائے جو سیکیورٹی ایجنسیز کے افسران پر مشتمل ہو اور اس میں سندھ کے علاوہ کسی اور صوبے کے افسران موجود ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ راؤ انوار نے آئی ایس آئی، آئی بی، ملٹی انٹیلی جنس (ایم آئی) کو جے آئی ٹی میں شامل کرنے کی استدعا کی ہے، لیکن ایم آئی اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں اور آئی ایس آئی کا بھی تحقیقات کا تجربہ نہیں ہے۔