34

توشہ خانہ کیس: ہائیکورٹ کے فیصلے تک ٹرائل کورٹ فیصلہ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں ٹرائل روکنے کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ ہائی کورٹ میں کیس ٹرانسفر کی درخواست پر فیصلے تک ٹرائل کورٹ فیصلہ نہیں کر سکتی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس اطہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو روسٹم پر بلایا تو وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی کورٹ نے کل درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ نے حکم امتناع دیا ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے کوئی حکم امتناع نہیں دیا۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے عدالت کوبتایا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 528 اس حوالے سے واضح ہے، میں رضامندی کا اظہار کروں تو اسکی خواجہ صاحب غلط تشریح کرتے ہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیس ٹرانسفر کی درخواست پر فیصلے تک ٹرائل کورٹ فیصلہ نہیں کر سکتی، معاملہ قانون سے آگے جا کر فریقین کی رضامندی پر آ چکا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ مقدمہ ٹرانسفر کرنے کی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، توقع ہے ہائی کورٹ اور ٹرائل کورٹ قانون کی روح کے مطابق چلیں گی۔

سپریم کورٹ کا حکم چیئرمین تحریک انصاف کی دیگر زیرالتوا درخوستوں پر اثرانداز نہیں ہوگا۔

بعد ازاں، عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کی درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز (3 اگست) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس قابل سماعت قرار دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج سنایا جائے گا۔

جبکہ گزشتہ روز اسلام آباد کی مقامی عدالت میں توشہ خانہ فوجداری کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے اپنے حتمی دلائل کا آغاز کر دیا تگا تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصلہ محفوظ ہونے کے باعث عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کر دی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔