68

فوجی عدالتیں؛ فل کورٹ بنے گا یا نہیں فیصلہ کل سنایا جائے گا

 اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس میں سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا جوکہ کل سنایا جائے گا۔

چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں ۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے زیرحراست ایک سو دو افراد کی تفصیلات عدالت میں پیش کردیں اورکہا کہ زیرحراست افراد فوجی تنصیبات میں حملوں میں ملوث ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیرحراست 7 ملزمان جی ایچ کیوحملے میں ملوث ہیں، 4 ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پرحملہ کیا، زیرحراست 28 ملزمان نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں حملہ کیا، ملتان سے 5 اور10 ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد پر حملے میں 8 ملزمان اور 5 پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں، چکدرہ حملے میں 14 ملزمان ملوث ہیں، پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان حملے میں 7 ملزمان نے حملہ کیا، ایبٹ آباد کے 3 اور بنوں گریژن پر 10 ملزمان نے حملے کیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی کمیرے اور دیگر شواہد کی بنیاد پرکی گئی۔

چیف جسٹس نے ریماکس دئیے کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے،ہم باقی درخواست گزاروں کا مؤقف بھی سننا چاہتے ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔

درخواست گزاراعتزازاحسن روسٹرم پرآ گئے۔ اس مرحلے پرآکربینچ کی تشکیل کو چیلنج کرنا حیران کن ہے، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے، ہمیں اس بینچ پرمکمل اعتماد ہے ،عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا،دوججوں کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے، میں خود 1980 میں 80 دیگروکلاء کے ساتھ گرفتار ہوا تھا، ہم مارشل لاء کے خلاف کھڑے ہوئے تھے دوججزاٹھنے سے کوئی تنازعہ موجود نہیں ،102 افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 102 گرفتار افراد کے دفاعی تنصیبات حملے کے ڈائریکٹ شواہد ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان تمام گرفتارافراد کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان 102 افراد کا فوجی ٹرائل کیا جائے گا؟ کوئی آزاد ادارہ ہونا چاہیے جو جائزہ لے کہ گرفتاریاں ٹھوس وجوہات پر کی گئیں یا نہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کیا سویلینز کو کمانڈنگ افسر کے حوالے کرنے سے پہلے مجسٹریٹ سے اجازت لی گئی یا نہیں۔

جسٹس یحیی آفریدینے استفسار کیا کہ کیا 102 افراد کی حوالگی کی درخواست مجسٹریٹ سے کی گئی تھی؟

جسٹس مظاہرنقوی نے پوچھا کہ کیس چلانے کے لیے شواہد کے طور پر آپ کے پاس صرف تصاویرہیں؟ عدالت میں ان افراد کیخلاف کیا شواہد پیش کیے جائیں گے؟ بظاہرلگتا ہے ملزمان کیخلاف مواد کےنام صرف فوٹوگراف ہیں۔

دوران سماعت اعتزازاحسن کے وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پرآ گئے،انہوں نے کہا ہم نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر دو ججز بینچ چھوڑ گئے اورایک پراعتراض کیا گیا۔

چیف جسٹس نے ریماکس دئیے کہ ہم مشاورت کریں گے جلدی کسی نتیجے پرپہنچے تو دس پندرہ منٹ میں بتا دیں گے، اعتزازاحسن،سلمان اکرم راجہ نے موجودہ بینچ پر ہی اعتماد کا اظہارکیا ہے۔

جبکہ اعترازاحسن اورسلمان اکرم راجہ نے فل کورٹ کی درخواست کی ٹائمنگ پراعتراض اُٹھایا۔اعتزازاحسن نے کہا درخواست تاریخی عدالتی لمحے کورونما ہونے سے روکنے کی کوشش ہے۔