180

بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو 5 سال قید کی سزا

بنگلہ دیش کی مقامی عدالت نے دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کو یتیم بچوں کے لیے بنائی گئی ٹرسٹ کے فنڈز میں غبن کا الزام ثابت ہونے پر 5 سال قید کی سزا سنادی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی مقامی عدالت میں جج محمد اخترالزمان نے خالدہ ضیاء پر یتیم بچوں کے لیے بنائی گئی ٹرسٹ کے فنڈ میں 2 لاکھ 52 ہزار ڈالر غبن کے الزام پر 5 سال قید کی سزا سنائی۔

سابق وزیراعظم کی جانب سے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ انہوں نے ایک پیسے کی بھی خورد برد نہیں کہ بلکہ یہ قانونی کارروائی سیاسی مقاصد کے لیے کی جارہی ہے۔

عدالتی فیصلے کے موقع پر کمرہ عدالت میں رش دیکھا گیا جبکہ عدالت کے اطراف سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رہی۔

تاہم عدالتی فیصلے کے بعد بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں سیکیورٹی فورسز اور خالدہ ضیاء کے حامیوں کے درمیان تصادم بھی دیکھنے میں آیا۔

پولیس کی جانب سے اپوزیشن کے ہزاروں کارکنوں پر آنسو گیس فائر کیے گئے جبکہ سخت سیکیورٹی میں خالدہ ضیاء کو کورٹ سے منتقل کیا گیا۔

بنگلہ دیش کے نجی ٹی وی چینلز سومو کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان کئی کلو میٹر تک جھڑپ جاری رہی اور اس دوران کم از کم 5 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے جبکہ 2 موٹر سائیکلوں کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔

اس فیصلے کے پیشِ نظر پولیس نے ڈھاکہ میں مظاہروں پر پابندی لگا دی تھی اور بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کو تعینات کردیا گیا تھا۔

اس حوالے سے ایک سینئر اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ 5 ہزار سے زائد پولیس اہلکاروں کو ڈھاکہ کی سڑکوں پر تعینات کیا گیا تھا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوسکے۔

صوابدیدی گرفتاریاں

دوسری جانب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی جانب سے دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں خالدہ ضیاء کو روکنے کے لیے اس طرح کا فیصلہ سنایا گیا۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی نے 2014 میں انتخابات میں بائیکاٹ کیا تھا جس کے بعد شیخ حسینہ واجد دوبارہ منتخب ہوئی تھیں تاہم اس بار یہ امکان تھا کہ آئندہ انتخابات میں خالدہ ضیاء کی جماعت حصہ لے گی۔

اس فیصلے کے حوالے سے 72 سالہ خالدہ ضیاء کی جانب سے کہا گیا کہ اس طرح کے الزامات کا مقصد انہیں اور ان کے خاندان کو سیاست سے دور کرنا ہے جبکہ انہیں سیاسی مقاصد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

فیصلے سے ایک دن قبل نیو کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو میرے خلاف استعمال کیا جارہا ہے تاکہ مجھے سیاست اور انتخابات سے دور اور لوگوں سے الگ کیا جاسکے۔

اس حوالے سے بی این پی کے ترجمان رضوی احمد کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے آنے سے قبل ہی 3500 اپوزیشن کارکنوں اور رہنماؤں کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے گرفتار بھی کیا گیا۔

انسانی حقوق کی نگران کی جانب سے بھی بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ صوابدیدی گرفتاریاں اور لوگوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ بند کرے۔

اس بارے میں گروپس ایشیاء کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا تھا کہ ملک میں تشدد کو روکنا اور حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی حقوق کو پامال کیے بغیر اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس فیصلے کے پیش نظر جمعرات کو ڈھاکہ میں متعدد نجی تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ مختلف رائڈ ہیلنگ سروسز کی جانب سے بھی ایک دن سروس کی معطلی کا اعلان کیا گیا تھا، ساتھ ہی پولیس کی جانب سے مختلف مقامات پر ناکہ بندی اور داخلی راستوں پر سخت نگرانی کی گئی تھی تاکہ بی این پی کے کارکنوں اور ان کے اتحادیوں کو دارالحکومت میں مارچ سے روکا جاسکے۔

سیاسی پس منظر

خالدہ ضیاء کی سیاسی تاریخ کی بات کی جائے تو 1980 کی دہائی کے وسط میں اپنے شوہر جنرل ضیاء الرحمٰن کے قتل کے بعد سیاست میں منظر عام پر آئیں تھی اور اپنی جماعت کی وائس چیئرمین منتخب ہوئی تھیں جبکہ 2 بار ملک کی وزیر اعظم بھی بنی تھیں۔

اپنے سیاسی دور کے دوران ان پر اور ان کے خاندان پر مختلف الزامات لگتے رہے اور جلا وطنی اختیار کرنے والے ان کے بیٹے طارق رحمٰن پر 2016 میں منی لانڈرنگ کے الزام میں سزا بھی دی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ساتھ خالدہ ضیا اور ان کے بیٹے کو 2007 میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا اور ڈیڑھ سال تک انہیں مبینہ کرپشن کے الزامات پر قید میں بھی رکھا گیا تھا۔

اس کے علاوہ طارق رحمٰن کو شیخ حسینہ واجد پر 2004 میں ہونے والے حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔