چین نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ سرد جنگ کی ذہنیت ترک کرتے ہوئے جوہری اسلحے میں تخفیف کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے۔
خیال رہے کہ چین کی جانب سے یہ بیان جمعے کو امریکہ کی نئی جوہری پالیسی کے سامنے آنے کے بعد آیا ہے جس میں امریکہ کے اسلحہ کے ذخائر میں توسیع اور تجدید کا منصوبہ شامل ہے۔
چینی وزارت دفاع نے کہا ہے امریکہ نے چین کے جوہری خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے ہتھیار دفاعی نوعیت کے ہیں۔
اس سے قبل سنیچر کو روس نے کہا تھا کہ نئی امریکی پالیسی ’روس مخالف اور تصادم پیدا کرنے والی ہے۔‘
امریکہ کی نیوکلیر پوسچر ریویو (این پی آر) کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’ہماری حکمت عملی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ روس اس بات کو سمجھ جائے کہ جوہری ہتھیار کا کسی بھی قسم کا استعمال، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو، قابل قبول نہیں۔‘
چینی وزارت دفاع نے کہا ہے امریکہ نے چین کے جوہری خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے
امریکہ کے نائب وزیر دفاع پیٹرک شینہن نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے جوہری ہتھیاورں نے امریکہ کو 70 سال سے زائد عرصے تک محفوظ رکھا ہے۔
انھوں نے واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ’وہ اس کے متروک ہو جانے کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘
یہ بھی پڑھیے
چین کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان نے اتوار کو کہا کہ چین امریکی وزارت دفاع کی جانب سے شائع کی جانے والی نیوکلیر پوسچر ریویو (این پی آر) کی سختی کے ساتھ مخالفت کرتا ہے۔
چینی خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق ترجمان رین گوکیانگ نے کہا امریکی دستاویزات میں پیش بندی کے طور پر چین کی ترقی اور اس کی جوہری قوت سے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ چین نے ہمیشہ جوہری ہتھیار کی تیاری میں انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی قومی سلامتی کی ضرورت کے حساب سے اپنی صلاحیت کو کم سے کم حد تک محدود رکھا ہے۔
ترجمان رین نے کہا کہ وسیع ترین جوہری اسلحہ خانہ رکھنے والے امریکہ کو چاہیے کہ وہ امن کی راہ پر گامزن دنیا کے ساتھ چلے اور اس کی مخالف سمت میں بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔
انھوں نے کہا: ’ہمیں امید ہے کہ امریکہ سرد جنگ کی اپنی ذہنیت کو مسترد کرکے اسلحے کی تخفیف کی اپنی مخصوص اور بنیادی ذمہ داری ادا کرے اور چین کے عسکری ارادوں کو سمجھتے ہوئے چين کے قومی دفاع اور فوجی ترقی کا منصفانہ جائزہ لے۔‘
انھوں نے امریکہ کے ساتھ باہمی تعلقات کے استحکام کے لیے اور مشترکہ طور پر عالمی امن و استحکام اور خوشحالی کے تحفظ کے لیے امریکہ کو نصف راستہ طے کرنے پر زور دیا۔