259

روہنگیا مہاجرین کیمپوں میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار عروج پر

بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں سے انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک ہزاروں پناہ گزین لڑکیاں انسانی اسمگلنگ کے اس مکروہ دھندے کا شکار ہوچکی ہیں۔

اسی حوالے سے غیر ملکی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق پناہ گزینوں کے کیمپوں کے دورے کے موقع پر ایک خاتون نویونا کا کہنا تھا کہ جنوبی بنگلہ دیش میں کٹوپالونگ پناہ گزین کیمپ میں ایک شخص ان کی 13 سالہ بیٹی یاسمین کو ان سے چھین کر لے گیا اور اسے بھارت اسمگل کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ 3 سال پہلے کی بات ہے جب نویونا اور یاسمین میانمار میں شروع ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن کے بعد وہاں سے یہاں منتقل ہوئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کو یہاں سے لے جانے والے اسمگلر کو بھارت میں گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ یاسمین کو ریسکیو کرلیا گیا اور اب وہ کولکتہ میں اسمگلنگ سے متاثرہ افراد کے لیے قائم محفوظ گھر میں رہائش پذیر ہے۔

یاد رہے کہ میانمار کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں سے 1982 میں شہریت چھین لی گئی تھی، جس کی وجہ سے ان کے پاس پاسپورٹ نہیں اور وہ نویونا خاتون اور یاسمین ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے۔

نویونا خاتون ہر ماہ پائی پائی جوڑ کر اپنی بیٹی سے کچھ لمحے ٹیلی فون پر بات کرکے اپنے دل کو سکون دیتی ہے لیکن وہ ڈرتی ہے کہ کہیں وہ اپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھے بغیر مر نہ جائے۔

غم زدہ ماں کا کہنا تھا کہ یاسمین میرے دل کا ٹکڑا ہے اور وہ صرف اپنی بیٹی کی واپسی چاہتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ صرف خدا جانتا ہے کہ روزانہ میں کس اذیت سے گزرتی ہوں، میرے پاس بھارت جانے کے پیسے نہیں ہیں جبکہ میری بیٹی نے مجھے خبر دار کر رکھا ہے کہ بغیر پاسپورٹ کے بھارت کی سرحد پار کرنے کی کوشش نہیں کرنا۔

عام کہانی

نویونا خاتون کی کہانی روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں کی غیر معمولی کہانی نہیں ہے۔

دائیں بازوں کے گروپوں کا کہنا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے گروہ روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں لیکن 6 لاکھ 50 ہزار سے زائد پناہ گزینوں کی حالیہ آمد نے انسانی اسمگلنگ کی صورتحال کو بدتر کردیا ہے۔

الجزیرہ کی جانب سے ایک انسانی اسمگلر سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ پناہ گزینوں کے کیمپ میں باہر سے لوگ آتے ہیں اور روہنگیا مہاجرین کی بیٹیوں کو کام دینے کے عوض رقم ادا کرنے کا وعدے کرتے ہیں لیکن پھر وہ لڑکیاں کبھی یہاں نظر نہیں آتیں۔

انسانی اسمگلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ہمارے پاس مرد آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہاں نادار لوگوں کی مدد کرنے آئیں ہیں، جس کے بعد کیمپوں میں موجود خاندان اپنی لڑکیاں انہیں فراہم کرنے کو راضی ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کو خوراک تک موجود نہیں ہے۔

اسمگر نے بتایا کہ یہاں آنے والے مرد ایک خاص عمر کی لڑکیوں کو منتخب کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ہر لڑکی کے 60 ڈالر ( 6 ہزار 645 روپے) دیتے ہیں۔

اپنی بات چیت کے دوران اسمگلر نے بتایا کہ یہاں آنے والے مرد کہتے ہیں کہ انہیں 12 سے 14 سال کی لڑکیاں اس لیے چاہیں کیونکہ انہیں گھریلو کام کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں اور انہیں ایسے فرد کی ضرورت ہوتی جو ان کے لیے کھانا بنا سکے۔

نویونا خاتون کو ان کی بیٹی یاسمین سے ملانے کے لیے اقوام متحدہ کی پناہ گزینوں کے ادارے کی جانب سے بھی کوششیں کی گئیں لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ بنگلہ دیشی انتظامیہ ہی کرے گی۔