47

ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ، انٹر بینک ریٹ 229روپے سے تجاوز کرگئے

کراچی: امریکا کی افراط پر کنٹرول کے لیے تیزی سے شرح سود بڑھانے کی پالیسی سے ڈالر پاکستان سمیت دنیا بھر میں مضبوطی کی جانب گامزن ہے جس سے ذرمبادلہ کی دونوں مارکیٹوں میں ڈالر کے انٹر بینک ریٹ 229روپے سے بھی تجاوز کر گئے جبکہ اوپن ریٹ 236روپے کی سطح پر آگئے۔

انٹر بینک مارکیٹ میں کاروباری دورانیے میں بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ کے سبب ڈالر ایک موقع پر 2 روپے 33پیسے کے اضافے سے 230 روپے 51پیسے کی سطح پر بھی آگیا تھا لیکن بعد دوپہر ڈیمانڈ گھٹنے سے ڈالر کی قدر 1.64روپے کے اضافے سے 229.82روپے کی سطح پر بند ہوئی۔

اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر 1.50روپے کے مزید اضافے سے 236روپے کی سطح پر بند ہوئی۔

واضح رہے کہ امریکا اور یورپین سینٹرل بینکس اپنے ہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے جارحانہ انداز میں شرح سود بڑھا رہے ہیں جس کے منفی اثرات پاکستانی روپے کی قدر پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب، پاکستان میں رواں سال سیلاب کی وجہ سے زراعت اور انفرا اسٹرکچرل تباہ کاریوں کے نتیجے میں 20ارب ڈالر سے زائد کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ سیلاب میں کپاس کی فصل اور لائیو اسٹاک کا خطیر نقصان ہوا جس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی ضروریات کے لیے ساڑھے تین سے چار ارب ڈالر کی کپاس درآمد کرنی پڑے گی جبکہ گوشت کی ضروریات کے لیے لائیو اسٹاک درآمد کرنا پڑے گا کیونکہ سیلاب میں پانچ سے سات لاکھ مویشی بھی بہہ گئے ہیں جن کی کمی کو درآمدات کے ذریعے پورا کیا جائے۔

اسی طرح، اگر اکتوبر تک سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانی کی نکاسی نہ ہوئی تو پھر پاکستان میں گندم کی کاشتکاری کے مسائل درپیش ہوں گے جس کی وجہ سے مقامی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گندم بھی درآمد کرنی پڑے گی لہٰذا مذکورہ اشیائے ضروریہ کی درآمدات کے لیے پاکستان کو اضافی ڈالرز درکار ہیں لیکن پاکستان کے پاس ذرمبادلہ کے موجودہ سرکاری ذخائر صرف ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کی استعداد رکھتے ہیں۔

آئی ایم ایف سے قسط موصول ہونے کے بعد پاکستان کی درآمدی استعداد صرف ایک ہفتہ بڑھی ہے۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوست ممالک قطر اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا جس پر تاحال عمل درآمد نہ ہوسکا ہے۔

سیلاب کے بحران سے قبل پاکستان کو مالی سال 2022-23 کے لیے 36 سے 37ارب ڈالر کی مالی ضروریات تھیں جن کا انتظام کرلیا گیا تھا لیکن تباہ کن سیلاب کے بعد اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور معیشت کے لیے مختلف محازوں پر چیلینجز درپیش ہیں اور یہی منفی عوامل روپیہ کو کمزور سے کمزور تر جبکہ ڈالر کو بلند سے بلند تر کر رہے ہیں۔