76

شہباز اور نواز شریف کیخلاف توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدلت کی درخواست قبل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔ درخواست گزار وکیل سید ظفر علی شاہ بطور پنشنر عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف کی درخواست پر 16 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ کا آرڈر جاری ہوا ۔ نواز شریف کی 2 اپیلیں اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھیں۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف اُس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت پر تھے ۔ اُس وقت وفاقی کابینہ نے 25 ملین روپے کی شرط کے ساتھ ایک مرتبہ بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری اُس وقت کی وفاقی کابینہ نے دی۔ اپیل اِس عدالت میں زیر التوا تھی تو اس وقت کی حکومت نے اِس عدالت سے نہیں پوچھا ۔اُس وقت کی وفاقی کابینہ نے اجازت دے دی تھی لیکن صرف پیسے جمع کرانے کی شرط تھی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سینئر کونسل ہیں،یہ بتائیں کہ ایک معاملہ دوسری عدالت میں زیر التوا ہے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟یہاں پر اپیلیں زیر التوا تھیں اس کے باوجود حکومت نے نام ای سی ایل سے نکالا تھا عدالت سے نہیں پوچھا ۔ اِس وقت عدالت اس معاملے میں نہیں جائے گی ۔

عدالت نے کہا کہ ہم اس پٹیشن کو مثالی جرمانے کے ساتھ خارج کرتے لیکن آپ سینئر وکیل ہیں اس لیے اس طرف نہیں جا  رہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ پٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں یا اس پر آرڈر پاس کریں ؟  درخواست گزار وکیل نے عدالت سے کہا کہ اگر آپ نے درخواست خارج کرنی ہے تو لاہور ہائیکورٹ جاؤں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کا اختیار ہے آپ کسی عدالت سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ وکیل سید ظفر علی شاہ نے کہا کہ اگر آپ نے درخواست مسترد کرنی ہے تو لاہور ہائیکورٹ جانے کے لیے درخواست واپس لیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہیں بھی جانے کے لیے آزاد ہوں گے، ہم آبزرویشن نہیں دیں گے۔ ہم اس درخواست پر مناسب حکم نامہ جاری کریں گے۔