سنگاپور: پاکستان اور ہندوستان میں عام استعمال کی جانے والی ایک بوٹی کے بارے میں سائنسی ثبوت ملے ہیں کہ وہ ذیابیطس کنٹرول کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اسے پنیربوٹی یا پنیر ڈوڈی کہا جاتا ہے اور اس کا سائنسی نام Withania coagulans ہے۔ سینکڑوں برس سے یہ بوٹی روایتی ادویہ میں استعمال ہوتی رہی ہے۔ تاہم سائنسدانوں نے کہا ہے کہ اگر اس بوٹی کا سفوف کیپسول کی صورت میں کھایا جائے تو اس کے زیادہ فوائد سامنے آتے ہیں۔ اسے تخمِ حیات بھی کہا جاتا ہے۔
سنگاپور میں واقع ننیانگ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کہا ہے کہ پنیربوٹی کے پھلوں سے ایک خاص اسٹیرائیڈ ملا ہے جسے چوہوں پر آزمایا گیا ہے۔ تجربہ گاہ میں ٹیسٹ کے دوران جب اسے چوہوں کے لبلبے کے زندہ خلیات پر آزمایا گیا تو وہاں سے انسولین کے اخراج میں اضافہ ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ انسولین ہی خون میں شکر کی مقدار کو قابو رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
تاہم پنیربوٹی بہت کڑوی ہوتی ہے اور اسے کھانا محال ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہمت کرکے اسے کھا بھی لے تب بھی اس کے اہم اجزا ہاضمے کے عمل میں ضائع ہوجائیں گے اور معدے کے تیزابیت اس کی تاثیر ختم کردے گی۔
اسی لیے ماہرین نے ایک سمندری مخلوق کے خول سے بنے نینو ذرات استعمال کیئے ہیں اور ان کے اندر دوا کو رکھا ہے۔ اس طرح پنیر بوٹی کے اجزا جسم کے اندر گہرائی تک پہنچتے ہیں اور وہاں جاکر شفا دینے والے اسٹیرائیڈز خارج کرتے ہیں۔
اس کے بعد کیپسول کو ذیابیطس کے مریض چوہوں کو دیا گیا جس سے خون میں گلوکوز کی شرح میں 40 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ چوہوں کا لبلبہ انسولین بنانے لگا تھا۔ یہ تحقیق اے سی ایس اومیگا میں شائع ہوئی ہے۔