77

بیماریوں والے بیکٹیریا کی ’’آواز‘‘ سننے والا انقلابی ٹیسٹ ​​​​​​​

ڈنمارک: ایک انقلابی ٹیکنالوجی وضع کی گئی  ہے جس کے تحت ماہرین اب بیماری پھیلانے والے بیکٹیریا کے باہمی رابطوں کو ’سن‘ سکتے ہیں۔ اس کی بدولت اینٹی بایوٹک دواؤں کی مزاحمت (اینٹی بایوٹکس ریزسسٹنس) کا بھی پتا لگایا جاسکتا ہے جو اس وقت ماہرین کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

ٹیکنیکل یونیورسٹی آف ڈنمارک (ڈی ٹی یو) سے وابستہ، ڈاکٹر فاطمہ زہرا الاتراکشی کا تیارکردہ یہ نظام صرف 30 سیکنڈ میں کسی بھی انفیکشن کا پتا لگاسکتا ہے۔ اس سے سسٹک فائبروسِس کے مریضوں میں پھیپھڑوں کے انفیکشن کا پتا بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ماہرین بیکٹیریا کے روابط کو سن کر یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ بیکٹیریا اپنی تعداد بڑھا رہے ہیں اور کب وہ حملہ آور ہوں گے۔ اس طرح انفیکشن کو جان لیوا بننے سے پہلے ہی روکا جاسکے گا۔

واضح رہے کہ اس ٹیکنالوجی پر مبنی ٹیسٹ ابھی زیرِ تکمیل ہے۔ لیکن امید ہے کہ صرف ایک معمولی نمونے سے ماہرین انفیکشن کی نوعیت اور بیکٹیریا کا برتاؤ معلوم کرتے ہوئے اندازہ لگالیں گے کہ یہ کن دواؤں سے ٹھیک ہوگا اور کونسی اینٹی بایوٹکس اس پر ناکارہ ثابت ہوں گی۔ لیکن یہ سارا کام صرف ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہوجائے گا۔

یہ نظام پیشاب کی نالی کے انفیکشن سے لے کر جان لیوا پھیپھڑوں کے مرض تک کے لیے مؤثر ہے۔ اس سے قبل بیکٹیریا کی تھوڑی تعداد پوری کالونی بناکر مرض کی وجہ بن جائے یہ بیکٹیریا کی باتیں سنتے ہوئے علاج کی راہ ہموار کرتا ہے۔

فاطمہ زہرا نے پری ڈائیگنوس نامی ایک کمپنی بنائی ہے جو بیکٹیریا کی شناخت کو نئے انقلاب سے دوچار کرے گی۔ ڈاکٹر فاطمہ زہرا کے مطابق اگر خاص بیکٹیریا کی سرگرمی معلوم ہوجائے تو ڈاکٹر درست ترین علاج کرسکتے ہیں جس سے وقت اور وسائل کی بچت ہوتی ہے۔

بیکٹیریا خاص قسم کے سالمات خارج کرکے ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور اگر زیادہ سالمات خارج ہورہے ہیں تو وہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔