شکاگو: ایک اہم دریافت کے بعد ماہرین نے کئی برس سے زیرِ بحث ایک معمہ حل کیا ہے جس کے تحت میتھین جذب کرنے والے اور اسے ایندھن میں بدلنے والے بیکٹیریا کا یہ اہم راز فاش ہوگیا ہے۔
قدرت کے کارخانے میں خاص بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جنہیں ’میتھونوٹروفِک‘ بیکٹیریا کہا جاتا ہے اور وہ میتھین گیس کھاتے ہیں اور اس کے بدلے میتھانول ایندھن بناتے ہیں۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں کئی علوم اور شعبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف ماہرین نے کہا ہے کہ ایسے بیکٹیریا میں ایک خاص قسم کا ’اینزائم یا خامرہ‘ پورے عمل کو بڑھا کر میتھین کو میتھانول میں تبدیل کرتا ہے۔ اس عمل میں تانبے (کاپر) کا ایک آئن استعمال ہوتا ہے۔
ماحولیاتی لحاظ سے یہ ایک اہم خبر ہے کیونکہ اس سے ایسے عمل انگیز بنانا ممکن ہوں گے جو انتہائی ماحول دشمن گیس میتھین کو ہضم کرکے اسے قابلِ استعمال میتھانول میں بدلیں گے اور اس سے خود ہماری توانائی کی ضروریات بھی پوری ہوسکیں گی۔
شکاگو میں واقع نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایمی روزن زوائگ نے بتایا کہ ’ عمل انگیز (کیٹے لسٹ) کی نشاندہی کئی دہائیوں سے ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔ اب ہماری تحقیقات سے میتھین سے میتھانول بنانے والے بیکٹیریا کا راز معلوم ہوگیا ہے۔ اس میں تانبے کا عمل دخل ہے جس سے پتا چلا ہے کہ آخر کسطرح قدرت میتھین کو میتھانول بناتی ہے۔‘
نیچر نامی جرنل میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میتھینوٹروفک بیکٹیریا ایک وار میں دو کام کرتے ہیں۔ ایک جانب تو وہ ماحول دشمن گرین ہاؤس گیسوں میں سرِفہرست میتھین کو جذب کرتے ہیں اور اسے ماحول دشمن ایندھن میں بدلتے ہیں۔ اگر یہ طریقہ قابلِ عمل ہوجاتا ہے تو دنیا کو صاف ایندھن کی تیاری کا ایک اور طریقہ مل جائے گا۔
مروجہ صنعتی طریقوں میں میتھین سے میتھانول بنانے کے لیے بہت بلند درجہ حرارت درکار ہوتا ہے جو 1300 درجے سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ اگر ہم بیکٹیریا والے نظام کی نقل بنانے میں کامیاب ہوجاتےہیں تو ہمارے ہاتھ میں آسان توانائی کا ایک نیا طریقہ بھی آجائے گا۔