اسلام آباد: سپریم کورٹ میں علی ظفر اور میشا شفیع تنازع سے متعلق درخواست کی سماعت میں عدالت نے میشا شفیع کے وکیل کی سرزنش کردی۔
سپریم کورٹ میں تین رکنی بینچ نے میشا شفیع اور علی ظفر تنازع سے متعلق گلوکارہ کی درخواست پر سماعت کی۔
میشا شفیع کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ گواہان پر جرح کرنا بنیادی قانونی حق ہے اور گواہان کو جانے بغیر ان کے بیان پر جرح کرنا ممکن نہیں۔
میشا شفیع کی جانب سے درخواست میں یہ بھی لکھا گیا کہ گواہ پیش کرنا ایک فریق اور اس پر جرح دوسرے فریق کا حق ہے لہٰذا سپریم کورٹ گواہان پر جرح کی اجازت دیتے ہوئے ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراد دے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس اعجاز الاحسن نے میشا شفیع کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ چاہتے ہیں تمام گواہان کے بیان ایک ساتھ ہوں؟ آپ چاہتے ہیں تمام گواہان پر جرح بھی ایک ساتھ ہو، آپ کس قانون کے تحت چاہتے ہیں کہ تمام گواہان کے بیان ایک ساتھ ہوں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے گواہان کے بیان کیسے لینے ہیں، عدالت آپ کی خواہش کے مطابق گواہوں کے بیان نہیں لے سکتی۔
معزز جج نے میشا شفیع کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ متعصب ہورہے ہیں، اس پر گلوکارہ کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں یہ واضح ہوسکے کہ جیمنگ سیشن میں کیا ہوا ہے۔
وکیل کے مؤقف پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بیانات کیسے ریکارڈ کروانے ہیں اس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، معزز جج نے گلوکارہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا عرصہ ہوگیا وکالت کرتے ہوئے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ مجھے وکالت کرتے ہوئے 11 سال ہوگئے ہیں۔
معزز جج نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے 11 سال میں کبھی دیکھا ہے کہ پہلے سب کے بیان ریکارڈ ہوں اور بعد جرح، میرے 30 سالہ عدالتی تجربے میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔
میشا شفیع کے وکیل نے کہا کہ میں کئی عدالتی فیصلوں کی نظیریں دے سکتا ہوں، کئی فیصلوں میں عدالت یہ بات کرچکی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلے کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہوتے، فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔دورانِ سماعت علی ظفر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 11 گواہان میں سے ایک گواہ کا بیان ریکارڈ ہو چکا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک کیلئے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ گلوکارہ میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کیا تھا جس کی علی ظفر سختی سے تردید کر چکے ہیں اور دونوں کا معاملہ عدالت میں ہے۔