پیرس: کرہِ ارض پر انسانی سرگرمیوں سے جانداروں، جنگلی حیات، قدرتی ماحول اور مسکن کو جو نقصان ہوا ہے وہ ہمیں اس ’ چھٹی معدومیت‘ کی جانب لے جارہا ہے جس کی پیشگوئی پہلے ہی کی جاچکی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے زیرِ تحت 450 سے زائد سائنسدانوں، ماہرین، سفارتکاروں اور دیگراسکالروں نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض پر زندگی کو سہارا دینے والا پورا نظام تیزی سے تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان میں مونگے اور مرجانی چٹانیں، ایمیزون جیسے جنگلات اور دیگر قدرتی مقامات شامل ہیں جن کی تباہی کی شرح ماضی کی مقابلے میں 100 سے 1000 گنا زائد بڑھ چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگلات میں ممالیوں کی مجموعی تعداد یعنی حیاتیاتی کمیت (بایوماس) 82 فیصد کم ہوچکا ہے اور قدرتی و فطری ماحول کی تیزرفتار تباہی سے دس لاکھ انواع کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور ان سب کی بڑی وجہ انسانی ترقی اور توسیع ہے۔
اگرچہ ابھی اس کی مکمل رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے لیکن اس رپورٹ کی تفصیلی پریس ریلیز منظرِ عام پر آچکی ہے۔ رپورٹ کو اقوامِ متحدہ کے تحت ’انٹرگورنمینٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بایو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروسِز ( آئی پی بی ای ایس) نے تیار کیا ہے جو سیارہ زمین پر حیاتیاتی تنوع پر نظر رکھنے والا ایک بڑا ادارہ ہے۔
2005 کے بعد پہلی مرتبہ کوئی تفصیلی رپورٹ سامنے آئی ہے جو 1800 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے اور اس میں 15000 سے زائد سائنسی مقالوں اور رپورٹوں کو شامل کیا گیا ہے ۔ ماہرین پرامید ہیں کہ یہ رپورٹ عالمی رہنماؤں اور پالیسی سازوں کی توجہ حاصل کرسکے گی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جانوروں کی اقسام اور انواع کے ختم ہونے کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں، ماحولیاتی آلودگی اور آب و ہوا میں تبدیلی سے 5 سے 10 لاکھ اقسام کے جاندار ختم ہونے کا خدشہ ہے جو اگلے چند عشروں میں بھی رونما ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق زمین کا 75 فیصد، سمندروں کا 40 فیصد اور دریاؤں کا 50 فیصد رقبہ انسانی سرگرمیوں سے تباہ ہوچکا ہے۔ 1980 کے بعد سے انسانوں کی جانب سے کاربن (ڈائی آکسائیڈ) کا اخراج دوگنا ہوچکا ہے جس سے عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً 0.7 درجے سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔
اس سے قبل ہم قطبینی برف کے پگھلاؤ کی ہولناک خبریں پڑھ چکے ہیں لیکن چند ہفتوں قبل ایک سروے سے انکشاف ہوا تھا کہ دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں کی تعداد اور اقسام میں تیزی سے کمی ہورہی ہے اور سالانہ ڈھائی فیصد اقسام ہمیشہ کے لیے ناپید ہورہی ہیں۔