ہم جانتے ہیں کہ ہوا میں آلودگی نظامِ تنفس اور دیگر جسمانی اعضا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی ہے لیکن اب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ فضائی آلودگی خصوصاً نوعمر بچوں کے دماغ کو بھی متاثر کررہی ہے۔
برطانیہ کے انتہائی آلودہ علاقوں میں رہنے والے ٹین ایج بچوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں بعض آوازیں سنائی دیتی ہیں یا وہ کسی ہیولے کو دیکھتے ہیں اور یہ سب ان کے دماغ کی کارستانی ہے۔
اسی بنا پر کنگز کالج لندن کی ہیلن فِشر اور ان کے ساتھیوں نے ان دونوں باتوں کے درمیان تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی ہے تاہم چند ماہرین کا اصرار ہے کہ ضروری نہیں کہ بچوں کی نفسیاتی اور دماغی کیفیات کا براہِ راست ذمے دار فضائی آلودگی کو ہی ٹھہرایا جائے۔
اس طویل مطالعے میں ماہرین نے 2000 ایسے نوعمر بچوں کو بھرتی کیا جن کی عمریں 18 سال کے قریب تھیں۔ ان میں سے 30 فیصد بچوں نے کہا کہ انہیں کم از کم ایک مرتبہ واہمے یا کسی غیرمرئی احساس کا سامنا ہوا ہے اور ان تمام بچوں کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا جہاں فضائی آلودگی لندن کے بقیہ علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
جن علاقوں میں ڈیزل گاڑیاں مسلسل نائٹروجن آکسائیڈ خارج کرتی ہیں، وہاں رہنے والے ہر 20 میں سے 12 بچے نے سائیکوسِس یا دماغی خلفشار کا اعتراف کیا۔ صاف علاقوں میں رہنے والے ہر 20 میں سے صرف 7 بچوں نے یہ شکایت کی جو ایک واضح فرق ہے۔
ماہرین ان دونوں کے درمیان حتمی تعلق بتانے سے گریزاں ہیں تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ آلودہ اجزا مسلسل دماغ میں جمع ہوکر اس پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ دماغی ماہرین کہتے ہیں کہ فضائی آلودگی دماغ کے اہم حصے فرنٹل کارٹیکس کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ حصہ سونگھنے کی حِس میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہی واہموں وغیرہ کو بھی جنم دیتا ہے۔
دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ گاڑیوں اور بسوں کا شور بھی دماغی افعال کو شدید متاثر کرتا ہے۔ دوسری جانب سویڈن کے بچوں میں فضائی آلودگی اور دماغی امراض کے درمیان تعلق دریافت کیا جاچکا ہے تاہم برطانیہ میں کیے گئے اس تازہ مطالعے پر ناقدین نے اعتراض کرتے ہوئے مزید تحقیقات پر زور دیا ہے۔