بوسٹن: آنکھوں میں زخم اور دیگر نقصانات کی صورت میں ایک سرجری کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تاہم اب ماہرین نے حیاتیاتی طور پر ایک ایسا جیل (گوند) تیار کیا ہے جو آنکھوں کی چوٹ کو ٹھیک کرسکتا ہے بلکہ اس کی بدولت آنکھوں کے قرنیہ کی منتقلی کے آپریشن کی ضرورت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
سائنس ایڈوانسز میں شائع ایک ایک رپورٹ میں ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی ٹیکنالوجی ’جیل کور‘ کے بارے میں لکھا ہے جو ایک گوند نما جیل پر مبنی ہے اور روشنی سے متحرک ہوکر جیل قرنیہ کے زخم بھرکر زخم اور کٹنے کے عمل کو دور کرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ جیل قرنیہ کی بافتوں (ٹشوز) کو افزائش کرتا ہے۔ تاہم اسے انسانوں پر نہیں آزمایا گیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے جلد یا بدیر یہ ایجاد قرنیے کے سرجری سے بھی نجات دلائے گی جن میں قرنیہ کی منتقلی جیسے پیچیدہ آپریشن بھی شامل ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کلائس ایچ دولمان اور اور میساچیوسیٹس آنکھ اور کان ہسپتال کے محقق رضا دانا نے امید ظاہر کی ہے یہ بایومٹیریل ہے جو قرنیہ کے زخم سے چپک جاتا ہے اور وہاں خلیات کی افزائش کرتا ہے اور قرنیے کی بڑھوتری عین قدرتی عمل کی طرح ہوتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال متاثر قرنیے سے نابیناپن کے 15 لاکھ سے زائد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فی الحال قرنیے میں سوراخ ، کمزوری، زخم اور پتلے پن سمیت دیگر خامیوں کو دور کرنے کے لیے لیزر اور دیگر طریقوں سے جراحی کی جاتی ہے۔ اسی لیے یہ گوند ایک بہترین بصارت دوست متبادل ہے۔ پھر قرنیے کی منتقلی میں انفیکشن اور مسترد کرنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
تجرباتی طور پر اس جیل کو بہت ہی مؤثر قرار دیا گیا ہے ۔ جب متاثرہ قرنئے پر اسے لگایا گیا تو 3 ملی میٹر کا زخم اس نے درست کردیا۔ چند دنوں بعد آنکھ بہتر اور ہموار ہوگئی اور جلن کے آثار بھی نہیں دیکھے گئے۔ سب سے بہتر بات یہ ہے کہ جب اس جیل پر روشنی ڈالی جاتی ہے تب ہی یہ سرگرم ہوتا ہے اور یوں روشنی قابو کرکے اسے بھی اپنے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے۔