247

پاکستانی انجینیئروں کے کم قیمت وینٹی لیٹر نے ایم آئی ٹی انعام اپنے نام کرلیا

بوسٹن: پاکستانی  طلبا اور ایک بھارتی طالب علم کی جانب سے تیارکردہ کم قیمت وینٹی لیٹر نے میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سلون انعام جیت لیا ہے۔ اس ایجاد کو 20 ہزار ڈالر کا انعام دیتے ہوئے ماہرین نے مقابلے میں شامل دیگر ایجادات اور اختراعات میں سب سے بہتر اور مؤثر قرار دیا ہے۔

اس ایجاد کو ’امبولائزر‘ کا نام دیا گیا ہے جسےایم آئی ٹی سلون ہیلتھ کیئر انوویشن پرائز مقابلے میں اول انعام دیا گیا ہے۔ مقابلے میں  ہر سال بوسٹن کے کالجوں اور جامعات کے طالب علم اپنی اختراعات اور ایجادات پیش کرتے ہیں۔ اسے بوسٹین یونیورسٹی کے گریجویٹ شہیر پراچہ اور ہارورڈ میڈیکل اسکول کے طالبعلم سنجے گپتا نے یہ ایجاد کی ہے ۔ امبولائزر کی تیاری میں ایم آئی ٹی اور بوسٹن کے دیگر طالب علم بھی شریک ہیں جن مں معیز امام، عبدالرحمان عکاس، واسع انور، روحان جدیجہ اور فرزان خان شامل ہیں۔

یہ آلہ ایک ڈیسک ٹاپ پرنٹر جیسا ہے جو بیٹری سے چلتا ہے اور اسے ایک سے دوسری جگہ لے آسانی سے لے جایا جاسکتا ہے۔ آلے کو چلاکر جیسے ہی آپریٹر نلکی مریض سے جوڑتا ہے تو وہ پھیپھڑوں میں ہوا کی مناسب مقدار شامل کرتا رہتا ہے۔ عام وینٹی لیٹر کی قیمت 15000 ڈالر تک ہوتی ہے جبکہ امبولائزر صرف دوہزار ڈالرمیں دستیاب ہوگا۔

اس موقع پر شہیر پراچہ نے شرکا سے کہا کہ ایک مکمل وینٹی لیٹر 15 مختلف کام کرتا ہے جن کی ضرورت کبھی کبھار ہی پیش آتی ہے۔ اسی لیے امبولائزر کو سادہ کرکے ایسے چار اہم کام کرنے کے قابل بنایا گیا ہے جن کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور اس سے جانیں بھی بچائی جاسکتی ہیں۔

شہیر نے بتایا کہ امبولائزر کو سب سے پہلے پاکستان میں آزمایا جائے گا جہاں انتہائی مہنگے  ہونے کی وجہ سے ہر ہسپتال میں وینٹی لیٹر موجود نہیں۔ امبولائزر ٹیم نے بتایا کہ ان کے وینٹی لیٹر کی طبی آزمائش انتہائی کامیاب رہی ہے۔

جب ہم نے ہسپتالوں میں پاکستانی ڈاکٹروں سے بات کی تو انہوں نے ایک ایسے سادہ، کم خرچ، چھوٹے اور دور سے مانیٹر کرنے والے وینٹی لیٹر کی ضرورت پر زور دیا جسے ہر کوئی آسانی سے استعمال کرسکے۔ اسی بنا پر ہم نے امبولائزر بنایا جو انتہائی درست انداز میں کام کرتا ہے، ‘ شہیر پراچہ نے بتایا۔

امبولائزر کی ٹیم نے کہا کہ انعام میں ملنے والی 20 ہزار ڈالر کی رقم کو اس کی طبی آزمائش کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ ٹٰیم کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا، افریقہ اور دیگر غریب ممالک میں یہ آلہ کامیابی سے فروخت کیا جاسکتا ہے۔