147

نومولود بچوں کے لیے پانی کے قطرے سے ہلکے بائیو سینسر تیار

الینوائے: نومولود بچوں کی پیدائش کے بعد ہی ان کی جسمانی کیفیات پر ہمہ وقت نظر رکھنے کے لیے ایک جانب تو خاص آلات کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری جانب ان پر کئی برقیرے (الیکٹروڈز) اور سینسر لگے ہوتے ہیں۔ یہ سب بچے پر بوجھ ڈالتے ہیں اور وہ تاروں میں پھنسا دکھائی دیتا ہے۔

لیکن اب تمام سینسروں کو اتنا ہلکا کردیا گیا ہے کہ ایک برقیرے کا وزن پانی کے قطرے کے برابر ہے اور سب بغیر تار کے کام کرسکتے ہیں۔ اس طرح ماں ناصرف بچے کو دودھ پلاسکتی ہے بلکہ اپنی آغوش میں بھی لے سکتی ہے۔ اس طرح بچہ اپنی والدہ کا لمس محسوس کرسکتا ہے جو اس کی زندگی اور صحت کےلیے بہت ضروری ہوتا ہے۔

نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں مختلف شعبوں کے ماہرین نے نرم ، لچکدار اور ہلکے پھلکے وائرلیس سینسر بنائے ہیں جنہیں دنیا بھر کے نومولود بچوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (این آئی سی یو) میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل بچے کو الجھانے والے تار ماں اور بچے کے درمیان ایک بڑی رکاوٹ تھے۔

حال ہی میں ماہرین نے اس پورے سینسر نظام کی آزمائش دو مختلف اسپتالوں میں کی، جہاں وائرلیس سینسر عین تاروں والے نظام کی طرح درست اور قابلِ بھروسہ ثابت ہوئے ہیں۔ سینسر اتنے لطیف اور نرم مادے سے بنے ہیں کہ نازک بچے کے جسم پر خراش پیدا نہیں کرتے اور نہ ہی سینے پر بوجھ بنتے ہیں۔

سائنس نامی جرنل میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں مٹیریل کے ماہرین، انجینیئروں، بچوں کے ماہرین اور دیگر مختلف ماہرین نے حصہ لیا ہے۔

ماہرین نے 20 بچوں پر یہ سینسر لگائے اور بقیہ 20 بچوں کو روایتی سینسر لگا کر پہلو میں لیٹایا۔ اس نظام کے پیچیدہ تاروں اور انہیں چپکانے کی تکلیف سے وابستہ بھاری بھرکم ہارڈویئر میں نمایاں فرق دیکھا گیا ہے لیکن انسانی جلد سے مشابہہ سینسر سے عین وہی نتائج حاصل ہوئے جو کسی روایتی نظام میں ملتے ہیں۔

عام حالات میں بچہ نصف درجن کے قریب تاروں سے پھنسا ہوتا ہے جو اس کے سانس، بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن، دماغی کیفیت، اور دیگر افعال کو نوٹ کرتا ہے۔ پھر قبل ازوقت پیدائش والے بچوں کے لیے ماں کا جسم اور لمس بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ اسی بنا پر ماں کو کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ دیر تک بچے کو اپنی آغوش میں رکھے۔

دوسری جانب عین یہی وائرلیس سینسر بڑے بچوں کے لیے بھی یکساں طور پر مفید ثابت ہوسکتے ہیں جو تاروں سے آزاد ہوکر پہلو بدلنا یا اٹھنا اور بیٹھنا چاہتے ہیں۔ کئی مواقع پر بچے تاروں سے جڑے سینسروں کو کھینچ لیتے ہیں یا نیند میں وہ سینسر نکل جاتے ہیں۔

اسی بنا پر ماہرین نے اس نئے نظام کو سراہا ہے تاہم اسے عام ہونے میں ابھی مزید کچھ برس لگ سکتے ہیں۔