لندن: فطرت اور سبزہ ہمارے لیے کتنا اہم ہے؟ اس کا اندازہ ایک نئی تحقیق سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو بچے سرسبز درختوں اور پودوں والے علاقوں میں پروان چڑھتے ہیں وہ بڑے ہوکر دماغی طور پر مضبوط رہتے ہیں اور انہیں دماغی و نفسیاتی عارضے نہیں ہوتے۔
ڈنمارک کی آرہس یونیورسٹی کی سائنسداں پروفیسر کرسٹین اینگمین نے کہا ہے کہ سرسبز علاقے دماغی صحت کی حفاظت کرتے ہیں اور سرسبز علاقوں کی سیر اور رہائش اور دماغی بہتری کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ خصوصاً بچوں کو یہ ماحول فراہم کیا جائے تو بلوغت پر ان دماغ توانا رہتا ہے۔
پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سماجی مشکلات، آلودگی، شور اور روزمرہ زندگی کے تقاضوں سے عوام نفسیاتی طور پر ہلکان ہوتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ماحول کو فطرت سےقریب کرکے سرسبزوشاداب بنایا جائے تو اس سے عوام کی دماغی صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتےہیں۔
اپنی تحقیق میں ماہرین نے 1985 سے 2013 تک سیٹلائٹ تصاویر سے کئی مقامات پر سبزے کو نوٹ کیا ہے اور لگ بھگ 9 لاکھ ایسے بچوں کی دماغی صحت کا جائزہ لیا ہے جو اس دوران سبزے کے قریب رہتے تھے یا اس سے دور رہائش پذیر تھے۔ اس کے بعد انہوں نے آبادی میں دماغی صحت کا مطالعہ کیا جس میں 16 مختلف دماغی و نفسیاتی عارضوں کا جائزہ لیا گیا۔
ماہرین نے اپنی تحقیق سے نتیجہ نکالا ہے کہ جو بچے سبزے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں ان میں جوانی یا ادھیڑ عمری میں دماغی امراض میں مبتلا ہونے کا خطرہ 55 فیصد تک کم ہوجاتا ہے ۔ اس کا موازنہ ان بچوں سے کیا گیا تھا جنہوں نے اپنا بچپن درختوں یا سبزے کے قریب نہیں گزارا تھا۔ یہ تحقیق پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنسس میں شائع ہوئی ہے۔
اس اہم تحقیق کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بچہ دس برس تک اپنا وقت سبزے، باغات یا پارک وغیرہ کے قریب گزارتا ہے تو بڑا ہونے پر اس کے دماغ پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب یہ دورانیہ جتنا بڑھتا جائے گا اس کا اتنا ہی فائدہ ہوتا جائے گا۔
اس سے قبل یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سرسبز علاقوں میں رہنے سے دل اور بلڈ پریشر کے امراض میں بھی نمایاں کمی ہوتی ہے۔