شکاگو:
بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم نے نینومیٹر جسامت والے انتہائی مختصر ذرّات یعنی نینو پارٹیکلز کو اس قابل بنالیا ہے کہ اب وہ کئی اقسام کے وائرسوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں اب بھی متعدد اقسام کے وائرس کروڑوں افراد کو موت کے دہانے تک پہنچا رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک ہمارے پاس ان گنت اقسام کے وائرسوں کو روکنے والی دوائیاں موجود نہیں۔
یونیورسٹی آف الینوئے، شکاگو کے پروفیسر پیٹر کرال کی نگرانی میں بین الاقوامی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایسے نینو ذرات بنائے ہیں جو کئی طرح کے وائرسوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔
یہ نینو پارٹیکلز ہرپس سمپلکس وائرس، ہیومن پیپی لوما وائرس یاایچ پی وی، ڈینگی اور لینٹی وائرس کا قلع قمع کرسکتے ہیں۔ قبل ازیں جو نینو ذرات بنائے گئے تھے وہ خلیے کے اندر وائرس جانے سے روکتے ہیں لیکن یہ نئے ذرات وائرس کو براہِ راست تباہ کرتے ہیں۔
اس پیش رفت کی ابتدائی تحقیقات ’’نیچر مٹیریلز‘‘ میں شائع ہوئی ہیں جن کے مطابق ان ماہرین نے ایسے نینو ذرات بنائے ہیں جو ایچ ایس پی جی کے تحت عمل کرتے ہیں (جس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں)۔ اس طریقے پر عمل کرکے یہ وائرس سے مضبوطی کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اور اسے تباہ کرکے چھوڑتے ہیں۔
خلوی سطح پر عمل کرنے والا ایک پروٹین ہیپیرن سلفیٹ پروٹیو گلاکن (ایچ ایس پی جی) کہلاتا ہے۔ وائرس عام طور پر اسی پروٹین کے ذریعے صحت مند انسانی خلیات کے اندر داخل ہوتے ہیں۔ عین یہی عمل نینو ذرات بھی کرتے ہیں اور کسی خلیے کے بجائے وائرس سے چمٹ کر اسے تباہ کرتے ہیں۔
ماہرین نے اپنی کاوش کو کامیاب بنانے کےلیے سوئٹزر لینڈ، اٹلی، فرانس اور چیک ری پبلک کے ماہرین کو اپنی ٹیم میں شامل کیا جن میں تجرباتی علوم کے ماہر، وائرس کا علم رکھنے والے سائنس دان اور بایوکیمسٹ بھی شامل تھے۔
ٹیم نے پہلے نینو پارٹیکلز اور ان کے کام کی کئی کمپیوٹر نقول (سمیولیشنز) بنائیں اور ذرات کو اپنے کام کے لحاظ سے تیار کیا۔ اس ضمن میں کمپیوٹر ماڈلنگ نے بھرپور مدد کی اور ایک ایک ایٹم کا کام نوٹ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ایسے نینو ذرات وجود میں آئے جو کئی اقسام کے خوفناک وائرسوں سے جڑکر انہیں تباہ کرتے ہیں جبکہ صحت مند خلیات کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔
تجربہ گاہ میں نینو پارٹیکلز نے بہت کامیابی سے ہرپس سمپلکس وائرس، ہیومن پیپی لوما وائرس یا ایچ پی وی، ڈینگی، لینٹی وائرس اور دیگر اقسام کے وائرسوں کو ختم کر دکھایا۔ اگلے مرحلے پر مزید تجربات کیے جائیں گے تاکہ ان ذرات کو پہلے جانوروں اور کامیابی کی صورت میں انسانوں پر آزمایا جاسکے۔