روچیسٹر، منی سوٹا: انسانوں میں عمر کے ساتھ ساتھ سماعت سے محرومی مکمل بہرے پن کی جانب لے جاتی ہے اور اس بیماری کو ختم کرنے کا اب تک کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوسکا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کان کے اندر پائے جانے والے بعض بال نما خلیات کو دوبارہ اگا کر سماعت کو لوٹایا جاسکتا ہے اور بعض جانوروں پر تجربات میں کامیابی بھی ملی ہے۔ سننے کے عمل میں آواز کی لہریں کان کے اندر داخل ہوتی ہیں اور ایک سفر طے کرکے طبلِ گوش (ایئرڈرم) تک پہنچتی ہیں۔ اس سے طبلِ گوش پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے جو کان کی درمیانی ہڈی سے گزر کر مزید بڑھتا ہے۔ آخری مرحلے میں اندرونی کان میں بال نما خلیات (کوکلیہ) ان ارتعاشات کو برقی سگنل میں بدلتے ہیں اور اس طرح ہم آواز سنتے ہیں۔
اب بڑھاپے یا تیز آوازوں میں رہتے ہوئے کوکلیہ بالکل تباہ ہوجاتا ہے اور عالمی ادارہ صحت کےمطابق اس وقت دنیا میں 40 کروڑ سے زائد افراد اس کےشکار ہیں جن کی سماعت لوٹائی نہیں جاسکتی۔
یونیورسٹی آف روچیسٹر میڈیکل سینٹر کی ڈاکٹر پیٹریشیا وائٹ نے 2012 میں ایسے ریسپٹرز کا گروہ دریافت کیا جو بعض جانوروں (مثلاً پرندوں اور مچھلیوں) میں سماعت کے اعصاب کی دوبارہ افزائش میں مدد دیتے ہیں۔ انہیں ایپی ڈرمل گروتھ فیکٹر (ای جی ایف) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ خلیات سماعت میں مددگار بالوں کے خلیات دوبارہ بنانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ لیکن قدرے پیچیدہ جانداروں میں یہ عمل ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔
اب ڈاکٹر پیٹریشیا اور ان کے ساتھیوں نے میساچیوسیٹس ایئر اینڈ آئی انفرمیری کے تعاون سے ممالیوں میں ان ریسپٹرز کو دوبارہ اگانے کے تجربات کئے ہیں۔ ان کے مطابق ای آر بی بی ٹو نامی ایک خاص ریسپٹر کوکلیہ میں سماعت والے خلیات کو دوبارہ پیدا کرتے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے پورے عمل کے طریقے کو بحال کرنے کے تین اہم طریقے بھی ڈھونڈ نکالے ہیں۔
اس کوشش کے نتیجے میں ماہرین کو دودھ پلانے والے (ممالیہ) جانوروں میں پہلی مرتبہ تمام ضروری بال نما خلیات اگانے میں کامیابی ملی ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے خلیاتِ ساق (اسٹیم سیل) کو استعمال کرکے انہیں مخصوص خلیات میں ڈھالا ہے اور سماعت میں ان کا غیرمعمولی مقام ہوتا ہے۔
ڈاکٹر پیٹریشیا وائٹ کے مطابق اس طریقے سے سماعت سے محروم افراد کے لیے امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے لیکن یہ سماعت کی بحالی ایک پیچیدہ اور صبرآزما طریقہ ہے جس کے لیے پورا نظام سمجھنا ہوگا۔