کولاراڈو: ہم خیالوں میں دنیا کے مشکل ترین کام کرسکتے ہیں خواہ وہ پہاڑ عبور کرنا ہو یا پھر کوئی طیارہ اڑانا۔ تخیل ہمارے دماغ کو مفید خیالات اور نت نئے تصورات سے بھر دیتا ہے۔ لیکن اب ماہرین کہہ رہے کہ یہی خیالات سوچنے کا عمل ہمیں ڈپریشن اور خوف سے نجات دینے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
حالیہ تحقیق کے بعد بعض ماہرین نے کہا ہے کہ ہمارے تخیل ہمارے ذہنوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ عمل بہت ٹھوس انداز میں رونما ہوتا ہے۔ 2009 کی ایک اہم تحقیق سے انکشاف ہوا تھا کہ جو ہم سوچتے ہیں بسا اوقات ہمارا جسم انہیں اصل سمجھتے ہوئے بھی اس پر اپنا ردِ عمل دیتا ہے۔ اسی طرح 2013 کی ایک تحقیق کرنٹ بایالوجی میں شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ خاص آوازوں اور اشکال سوچنے سے حقیقی دنیا سے ہمارے ردِ عمل اور برتاؤ میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔
اب جرنل ’نیورون‘ میں شائع ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہم تخیل کے زور پر اپنے اندر ’جادوئی قوت‘ جگاکر مسلسل خوف اور پریشانی پر قابو پاسکتے ہیں۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف کولاراڈو کے پروفیسر ٹور ویگر اور ان کے رفقا نے کی ہے۔ اس عمل کو انہوں نے ’ایکسپوژر تھراپی‘ کا نام دیا ہے جس میں خیالات اور سوچ کے ذریعے انسان پریشانی اور خوف سے باہر نکل سکتا ہے۔
سروے میں 68 صحتمند افراد کو شامل کیا گیا اور انہیں ایک خاص آواز سنائی گئی جس کے بے آرام لیکن غیرتکلیف دہ برقی جھٹکا وابستہ تھا۔ اب ان لوگوں کو تین گروہوں میں بانٹا گیا ۔ ایک گروہ کو وہی آواز سنائی گئی لیکن بجلی کا جھٹکا نہیں دیا گیا۔
دوسرے گروہ سے کہا گیا کہ وہ تصور یا خیال میں اس آواز کو سوچیں۔ تیسرے گروہ کو پرندوں کی چہکار اور برسات کی خوشگوار آوازیں سوچنے کا کہا گیا۔ اس دوران سب کے فنکشنل ایم آر آئی لئے جاتے رہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ برقی جھٹکے سے وابستہ آواز کا تصور بھی عین اسی طرح پریشان کن تھا جیسی وہ آواز اور کرنٹ جھٹکا تھا۔
اس بنیاد پرماہرین کا مشورہ ہے کہ اداسی میں اچھی چیزوں کا مضبوط تخیل جمائیں اور خوف کی کیفیت میں عین وہی بات سوچیں جو اس خوف کے خلاف ہو یا اسے کم کرسکے۔ مسلسل مشق سے یہ کیفیت مضبوط ہوتی ہے اور منفی کیفیات دھیرے دھیرے دور ہوتی جاتی ہیں۔